خود احتسابی/شوکت علی
انگریز متحدہ ہندوستان کا خواہاں تھا، لیکن!
دوسری جنگ عظیم فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی تھی۔ انگریز ہر صورت میں جنگ جیتنا چاہتا تھا اور اسے شاید یہ بھی نظر آنے لگا تھا کہ جنگ کے بعد شاید وہ زیادہ عرصے تک ہندوستان پر اپنا اقتدار قائم نہ رکھ سکے اور اسے ہندوستان کو آزادی دینا پڑے۔ہندوستان کو متحدہ چھوڑنے کا کریڈٹ انگریز لینا چاہتا تھا کہ مختلف ریاستوں میں بٹّے ایک براعظم کو وہ ایک حکومت کے تخت چھوڑ کر جا رہا ہے جو اسکا بہت بڑا کارنامہ سمجھا جاتا جبکہ دوسری طرف محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کو منطقی نتیجہ تک پہنچانے کا عزم کر چکی تھی اور انکا آخری مطالبہ صرف اور صرف ہندوستان کی تقسیم تھا۔ جیسا کہ کہا گیا کہ انگریز ہندوستان کو متحد رکھنا چاہتا تھا چنانچہ ۱۷ فروری ۱۹۴۴ء کو لارڈ ویول نے مجلسِ قانون ساز میں خطاب کرتے ہوۓ ہندوستان کے اتحاد کی راہ میں ہندو مسلم تقسیم کو بنیادی رکاوٹ قرار دیا۔ لارڈ ویول نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہندوستان دفاع، بیرونی دنیا سے تعلقات، اندرونی و بیرونی معاشی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فطری اکائی ہے جس کے ٹوٹ جانے سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ وائسراے کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کا فیصلہ ہندوستانیوں کو ہی کرنا ہے کہ وہ اس ایک اکائی کے اندر رہتے ہوۓ ہندو مسلم اور دیگر اہم برادریوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ریاستوں کے مسائل کو یہاں کی دولت اور وسائل کو استعمال کرتے ہوۓ حل کریں۔ ہندو اور مسلمان دو برادریوں حتٰی کہ دو قوموں کی حثیت سے اکٹھا رہنے کے انتظامات کر سکتے ہیں اگر وہ اپنے تہذیبی، مذہبی اور تاریخی اختلافات کو بڑھاوا نہ دیں۔ وائسراے نے کہا کہ اس مسلے کو کئی طریقوں سے حل کیا جاسکتا ہے مثلاً انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ بھی صدیوں تک جھگڑنے کے بعد آخر اکٹھے ہو ہی گئے۔ کینیڈا میں برطانیہ اور فرانس ایک اطمینان بخش وفاقی نوعیت کے تصفیے پر متفق ہوگئے۔ متحدہ امریکہ میں بہت سے نسلی و مذہبی گروہ ایک وفاقی طرز کی حکومت کے اندر ایک قوم میں مدغم ہوگئے تاہم آئر لینڈ میں متحارب عناصر اب تک متحد ہونے میں ناکام رہے ہیں اور آئر لینڈ ایک قسم کا پاکستان ہے اگرچہ یہ تشبیہ لازم و ملزوم ہے۔ لارڈ ویول نے کہا کہ یہ مثالیں ہندوستان کے آئینی ماہرین کو دعوتِ مطالعہ دے رہی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ ہندوستان کے مسائل کو بڑی حد تک حل کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وائسراے نے کہا کہ دنیا میں کوئی انسان جغرافیہ کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ اس بات سے لارڈ ویول کا اشارہ یقینا قائد اعظم کی طرف تھا جو ہندوستان کو دو آزاد ریاستوں میں تبدیل کرنے کا عزم کیے بیٹھے تھے۔
لارڈ ویول کی مجلسِ قانون ساز میں کی جانے والی اس تقریر کا جواب قائد اعظم نے ۹ مارچ ۱۹۴۴ء بروز جمعرات علی گڑھ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوۓ دیا۔ قائد اعظم نے اپنے اس خطاب میں کہا کہ
“ وائسراے کی تقریر اشتعال انگیز تھی جس میں مسلمانوں کی پوزیشن کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا بلکہ وہ کانگریس کو چارہ ڈال رہے تھے اور اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ گاندھی انکے دور میں دوستانہ رویہ اختیار کیے رکھیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لارڈ ویول اپنے پیشرؤں کی طرح کانگریس کے پانیوں میں مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔” قائد اعظم نے وائسراے کی تقریر کی دھجیاں اڑاتے ہوۓ کہا کہ “ اس کے اتحاد کے تصور کی اس سے زیادہ کیا تشریح کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ ہندوستان پر برطانوی قبضے اور اس استعماریت کو جاری رکھنا چاہتا ہے جس نے ہندوستان کا گلہ گھونٹے رکھا ہے۔ اس نے یقینا مسلمانوں کے مطالبات کو نظر انداز کیا ہے بلکہ وہ اکھنڈ ہندوستان کے پنڈتوں کی خوشنودی کی خاطر اپنی حد سے باہر نکل گیا۔ قائد اعظم نے مزید کہا کہ کانگریس کو جو چارہ ڈالا جا رہا ہے یہ ہندوستان کو کسی مثبت سمت میں نہیں لیکر جاۓ گا بلکہ میری یہ پختہ راۓ ہے کہ ایک خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے جو انتہائی سنگین نتائج کی طرف جاتی ہے۔ قائد اعظم نے کہا اس وقت وائسرے کی اولین ترجیح جنگ جیتنا ہے جسکی حتمی صورت یہی ہے کہ وہ پاکستان کے مطالبے کو تسلیم کریں جس کے معنی ہندو اور مسلمان دونوں کی آزادی ہوگا یعنی قائد اعظم کے مطابق متحدہ ہندوستان ہندوؤں کے لیے تو آزادی ہوگا لیکن مسلمان برطانوی غلامی سے نکل کر ہندوؤں کی غلامی میں چلیں جائیں گے۔ قائد اعظم نے مزید کہا کہ “ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کو مدغم کرنے کی کوشش ایک ناممکن عمل ہے جبکہ پاکستان کا قیام ایک حقیقت ہے۔ اس کے قیام میں کسی قسم کی تاخیر کرنا بیوقوفی اور فضول ہوگا۔ اپنی اس تقریر کے اختتام میں قائد اعظم نے مسلہ فلسطین کا بھی ذکر کیا اور آپ نے برطانوی حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس پر نہ صرف آل انڈیا مسلم لیگ بلکہ ساری مسلم دنیا بغاوت کرے گی۔
وائسراے لارڈ ویول کی تقریر اور قائد اعظم کے اسکی تقریر پر کیے جانے والے ردعمل سے ہمیں دو باتوں کا پتہ چلتا ہےجو آج بھی پاکستان کی سیاست میں مسلہ فلسطین پر ہماری خارجہ پالیسی کا راہنما اصول ہی ہونا چاہیے کہ بانی پاکستان اس وقت بھی فلسطین میں کسی بھی قسم کی ممکنہ یہودی ریاست کے امکان کے خلاف تھے جب پاکستان ابھی وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ قائد اعظم اس وقت فلسطین کے مسلمانوں کے حق کی بات کر رہے تھے جب ابھی ہم خود اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ آج ہم ستترواں یوم آزادی منا رہے ہیں تو کیا ہمیں کہیں زیادہ جوش و ہمت سے فلسطینیوں کے حق میں آواز نہیں اٹھانی چاہیے اور اگر ہمیں اس بات کی اجازت نہیں تو سوال یہ ہے کہ کہیں ہماری آزادی ہم سے چھینی تو نہیں جاچکی؟ آزادی کیا ہے؟ یہی ناکہ کوئی قوم اپنی مرضی و منشا سے اپنے فیصلے خود کر سکتی ہو لیکن اگر اسے اپنے فیصلے کرنے سے پہلے دوسروں کی رضا یا ناراضگی کو ڈر ہو تو وہ قوم آزاد ہونے کا دعوی نہیں کر سکتی پھر چاہے اسکی خفیہ ایجنسیاں دنیا کی نمبر ون ایجنسیاں ہی کیوں نہ ہو، اسکی فوج کا شمار دنیا کی بہترین فوجوں میں ہی کیوں نہ ہوتا ہو، چاہے وہ ایٹمی طاقت ہی کیوں نہ ہو۔
جب کوئی قوم اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہو اور اسکی بنیاد پر اسنے اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا ہو تو یاد رکھیں اسکی یہ جغرافیائی حثیت اسوقت تک محفوظ رہیں گی جب تک وہ اپنی علیحدہ شناخت کے نظریہ پر قائم دائم رہے گی۔ جس دن وہ اپنے علیحدہ قوم ہونے کے نظریے پر شک و شبہ میں مبتلا ہوئی یا اسے اس میں مبتلا کیا گیا تو اسکی جغرافیائی سرحدوں کا وجود بھی خطرے میں پڑناتا ہے۔ دو قومی نظریہ ایک آفاقی حقیقت ہے جو پاکستان کے قیام حتٰی کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی قائم و دائم رہا۔ اگرچہ پون صدی گزر جانے کے بعد اس بحث کو ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن کیا کیجیے کہ پاکستان میں ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے سیاسی مفادات کے لیے دو قومی نظریہ کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور ان لوگوں کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں جو تاریخ سے آگاہی نہیں رکھتے۔ اس لیے جب آزادی منا رہے ہوں تو اس بات پر پختہ یقین رکھیں ہمارے اسلاف نے ، بانیانِ پاکستان نے پاکستان کا حصول ایک علیحدہ قوم ہونے کے دعوی کی بنیاد پر کیا تھا اس لیے ہم ایک علیحدہ قوم ہیں اور جب تک ہم سب اس بات پر اپنے ایمان رکھیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو رتی بھر نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔