خود احتسابی/شوکت علی
کوپن ہیگن/ڈنمارک
سردار محمد خان نے مختلف سفارتی مشنز پر نیو دہلی، قاہرہ اور روم میں پاکستان کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ انھیں۱۹۵۳ء میں چین میں پاکستانی سفارت خانے کا ڈپٹی چیف بنا کر بھیجا گیا بعد ازاں وہ چین میں ہی ۶۸-۱۹۶۶ میں دوبارہ پاکستان کے سفیر بنا کر بھیجے گئے۔ وہ اپنی کتاب “میموریز اینڈ ریفلیکشنز “ میں بتاتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب پاکستان نے امریکہ کے ساتھ باہمی دفاع کے معاہدوں سیٹو اور سینٹو پر دستخط کیے۔ ان معاہدوں کا بنیادی مقصد مشرقی وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشا کو اشتراکیت کی جارحیت سے بچانا تھا۔ چین پاکستان کے اس رویے پر کافی پریشان اور مایوس تھا چنانچہ اس نے پاکستان سے وضاحت مانگی کہ وہ اس بات کی کوئی عقلی دلیل دیں کہ پاکستان کو چین یا روس سے کس طرح خطرہ ہے۔ سردار محمد خان کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ ہندوستان نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوۓ چین اور عرب ممالک کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب رہا کہ پاکستان خطے میں مغربی مفادات کو فروغ دے رہا ہے (یاد رہے کہ سینٹو یعنی بغداد پیکٹ کی وجہ اے عرب ممالک بھی پاکستان سے ناراض تھے) اور پھر اسی بات سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ ہندوستان نے اعلان کر دیا کہ ان معاہدوں کے بعد ہندوستان کشمیر کے معاملہ پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کا پابند نہیں رہا اگرچہ اس سے پہلے ان قراردادوں سے بچنے کے لیے ہندوستان اور بھی کئی بہانے تراشتا رہا تھا لیکن انھیں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی جبکہ ان دفاعی معاہدوں نے ہندوستان کو بنا بنایا عذر فراہم کر دیا کہ یہ معاہدے خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ رہے ہیں اور اس صورت میں اگر کشمیر بھی پاکستان کے ساتھ مل جاتا ہے تو طاقت کا توازن پوری طرح پاکستان کے حق میں ہو جاۓ گا جو ہندوستان کے لیے سراسر خطرہ ہے لہذا ان حالات میں مسلہ کشمیر پر ہندوستان کسی قسم کی بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اور یوں ہم نے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کر کے اپنی فوج کو تو مضبوط کر لیا لیکن ان معاہدوں نے مسلہ کشمیر کے حل کو التوا میں ڈال دیا۔ ہم آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہندوستان عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو کتنی آگے لے جاچکا ہے اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کے دعوی کو ، اپنے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرتے ہوۓ ، حقیقت میں بدل چکا ہے۔
سیٹو کا رکن بننے پر پاکستان نے چینی حکام کو وضاحت دی کہ پاکستان کسی بھی قسم کی ہندوستانی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرنے پر مجبور تھا۔ہندوستان مسلہ کشمیر کے علاوہ نہروں کے پانی کو روک کر بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر چکا ہے اور وہ سرحدوں پر اپنی فوجوں کا اجتماع کر کے بھی پاکستان کو دھمکاتا رہا ہے۔ پاکستانی سفیر نے وضاحت کرتے ہوۓ کہا کہ پاکستان کو چین سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے لیکن اسے اپنی دفاعی ضروریات صرف مغرب سے پوری ہوتی نظر آ رہی تھیں تو وہ اس معاہدے کا حصہ بن گیا۔ اسی طرح چینی وزیر اعظم چو این لائی سے گفتگو کرتے ہوۓ جب چینی وزیر اعظم نے اس بات پر عدم یقین کا اظہار کیا کہ ہندوستان کبھی پاکستان پر حملہ کرے گا تو پاکستانی سفیر جنرل رضا نے کہا کہ “ہم ہندوستانیوں کو بہتر طور پر جانتے ہیں ہم انکے ساتھ صدیوں رہے ہیں اور انکی سوچ کو آپ سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ جنرل رضا نے مزید کہا جناب وزیر اعظم میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں کہ اگر ہندوستان کے مفاد میں ہوا تو یہ ایک دن آپ پر بھی حملہ کریں گے۔” چین میں پاکستان کے سفیر جنرل رضا کی چینی وزیر اعظم کو کہی گئی ان باتوں سے کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں مثلاً سیٹو اور سینٹو کا معاہدہ جس کے تخت پاکستان کو امریکہ سے فوجی امداد حاصل ہوئی وہ معاہدہ تو خطے میں اشتراکی پھیلاؤ کے خطرے کے خلاف تھا اور وقت پڑنے پر اس معاہدہ کے تخت حاصل ہونے والی فوجی امداد کو اشتراکی ممالک کے خلاف ہی استعمال کرنا تھا تو پھر پاکستان کے اربابِ اقتدار نے یہ کس طرح سوچ لیا کہ انھیں اس معاہدے کے تخت ملنے والا اسلحہ ہندوستان کے خلاف استعمال کرنے دیا جاۓ گا؟ اور اگر پاکستان ایسا کرتا ہے تو یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی اور امریکہ اپنی فوجی امداد روک دینے میں حق بجانب ہوگا۔ دوسرا اہم سوال کہ اگر ۱۹۵۳ء میں چین میں پاکستان کے سفیر کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ جب کبھی بھی ہندوستان کے مفاد میں ہوا تو وہ چین پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہیں کرے گا تو پھر ستمبر ۱۹۶۵ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کس طرح یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ بیشک وہ کشمیر میں گوریلا دستے داخل کر دیں تو پھر بھی بھارت اسکے ردعمل میں پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا؟ اس پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ۱۹۶۲ء میں بھارت اور چین کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد امریکہ نے ہندوستان کے لیے اپنے اسلحہ خانوں کے دروازے کھول دیے تھے اور ہندوستان کو اس قدر فوجی امداد دی گئی کہ پاکستان کو باقاعدہ امریکہ سے احتجاج کرنا پڑا کہ ہندوستان کو ملنے والی امداد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا توازن بھارت کے حق میں ہوچکا تھا۔ اس سے قبل بھی کئی بار پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدوں کی موجودگی کے باوجود امریکہ ہندوستان کو نوازتا رہا تھا مثلاً ۱۹۵۸ ء میں جب پاکستان امریکہ سے یو۔ایس بی۔۵۷ بمبرز طیاروں کی امید لگاۓ بیٹھا تھا تو امریکہ نے پاکستان کو یہ جنگی جہاز فراہم کرنے کی بجاۓ ہندوستان کو جدید فوجی سامان فراہم کر رہا تھا جس پر اسوقت کے پاکستانی وزیر اعظم فیروز خان نون تلملا اٹھے اور انھوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوۓ امریکہ پر شدید تنقید کرتے ہوۓ کہا کہ “ہم دنیا کے ساتھ تمام معاہدے توڑ دیں گے اور ان لوگوں سے ہاتھ ملا لیں گے جن کو ہم نے دوسروں کی خاطر اپنا دشمن بنا لیا ہے۔” امریکہ کی اخبار نیویارک ٹائمز نے ۹ مارچ ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں خبر لگائی کہ “پاکستانی راہنما نے مغرب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا:نون نے ہندوستان کو اسلحہ کی فروخت پر حملہ کیا، پالیسی کی تبدیلی کی دھمکی دی۔” اسی سال فیروز خان نون کی حکومت کا تختہ الٹ دینے کے بعد ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ جنرل ایوب نے بھی اپنی فوجی حکومت کے دور میں ہندوستان کی طرف امریکی جھکاؤ پر متعدد بار احتجاج کیا جس کے جواب میں امریکہ پاکستان کو یقین دلاتا رہا کہ اگر امریکہ کبھی بھی ہندوستان کو فوجی امداد دے گا تو وہ اس سے پہلے پاکستان سے صلاح مشورہ کرے گا لیکن ۱۹۶۲ ء کی ہندوستان چین جنگ کے بعد اسلحے کی فراہمی سے پہلے پاکستان کو بلکل اعتماد میں نہیں لیا بلکہ جنرل ایوب پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس مشکل وقت میں ہندوستان کے لیے دوستانہ رویے کا اظہار کرے حالانکہ یہ بہترین موقع تھا جب پاکستان کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر سکتا تھا لیکن پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے ایسا کرنے سے منع کر دیا گیا۔ امریکہ نے ہندوستان کو دیے جانے والے بے پناہ اسلحے کا پاکستان کو یہ جواز پیش کیا کہ ہندوستان کو یہ اسلحہ چین کے خلاف دفاع کے لیے دیا جارہا ہے لیکن پاکستان میں اخبارات نے اس پر شدید احتجاج کیا حتیٰ کہ امریکی اخبارات نے بھی یہ نقطہ اٹھایا کہ ہندوستان کو دی جانے والی فوجی امداد کے بدلے میں اسے مسلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ ہندوستان چین سے خطرے کی آڑ میں اسلحے کے ڈھیر لگا چکا تھا اور وہ چین سے اپنی شکست کی خفت بھی مٹانا چاہتا ہوگا ان حالات میں پاکستان کا کشمیر میں گوریلا آپریشن کرنے کا فیصلہ گویا آ بیل مجھے مار کے مترادف تھا۔اس آپریشن کے پہلے حصے میں کشمیر میں گوریلا دستے داخل کیے جانے تھے اور آپریش کے دوسرے مرحلے گرینڈ سلام میں کشمیر میں موجد بھارتی فوج پر انتہائی تیزی سے حملہ کرتے ہوۓ اسے کشمیر میں محصور کر دینا تھا۔ کیا فیلڈ مارشل جنرل ایوب کبھی بھی اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکے کہ پاکستان کی کشمیر میں دراندازی طاقت کے نشے میں چور ہندوستان کو پاکستان پر حملہ کرنے کا جواز فراہم کر دے گی؟
پاکستان نے امریکہ سے دفاعی معاہدوں کے تخت ملنے والی فوجی امداد کے بل بوتے پر بذریعہ طاقت کشمیر کے مسلہ میں جان ڈالنے کی کوشش کی جس نے ہمیں جنگِ ستمبر میں جھونک دیا۔ ہم نے دس سالوں میں جو امریکی اسلحہ جمع کیا تھا اس سے ہم صرف سترہ دن ہی جنگ لڑ سکے اور پھر مزید اسلحے کی فراہمی کے لیے ۱۹ ستمبر کو جنرل ایوب اور بھٹو کو چینی قیادت کے ساتھ ایک انتہائی خفیہ میٹنگ کے لیے بیجنگ میں اسی چین کے دروازے پر دستک دینا پڑی جس چین کے اشتراکی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہم سیٹو اور سینٹو کے رکن بنے تھے۔ امریکہ ہمیں دس سال تک اسلحہ دیتا رہا لیکن جب ہمیں پاکستان کے دفاع کے لیے اسلحہ کی ضرورت پڑی تو اسلحہ کی فراہمی روک دی گئی اور پہلے سے ملنے والی فوجی امداد کی نگرانی کرنے والے امریکی فوجی افسران جی ایچ کیو راولپنڈی سے اٹھ کر واپس امریکہ جا چکے تھے۔
امریکہ کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا سہرا جنرل ایوب کو جاتا ہے ۔ انھوں نے تو اس وقت بھی جب وہ ابھی بری فوج کے کمانڈر تھے تو پاکستانی حکومت سے بالا بالا واشنگٹن میں امریکی فوج کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگون سے نہایت گہرے دوستانہ روابط قائم کر رکھے تھے۔ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں انھیں احساس ہوگیا تھا کہ جس امریکہ کو وہ اپنا دوست سمجھ رہے تھے وہ تو اپنے تئیں پاکستان کا آقا بنا ہوا تھا چنانچہ اپنے کیے پر ضمیر کی خلش مٹانے کے لیے انھوں نے “فرینڈز ناٹ ماسٹرز” کتاب لکھ کر امریکہ کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ پاکستان آقاؤں کا نہیں بلکہ دوستوں کا خواہشمند ہے اور ایک حقیقی دوست تو وہی ہوتا ہے جو مشکل میں کام آۓ ناکہ عین مشکل کے وقت رفو چکر ہو جاۓ۔ افسوس جب تک جنرل ایوب صاحب کو اس بات کا احساس ہوا وقت گزر چکا تھا اقتدار پر انکی گرفت کمزور پڑ چکی تھی۔ دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انکی ہمت بھی نہیں رہی تھی کہ وہ کسی قسم کے سیاسی عدم اطمینان و انتشار کا سامنا کر سکیں چنانچہ انھوں نے اقتدار سے رخصت ہونے کا فیصلہ کر لیا اور جاتے جاتے پھر یہ ثابت کر گئے کہ وہ بہر حال ایک فوجی جرنیل ہی تھے کہ انھوں نے اپنے بناۓ ہوۓ آئین کی پامالی کرتے ہوۓ اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کرنے کی بجاۓ جنرل یحییٰ کے سپرد کر دیا۔
آج ہم پاکستان کو انسٹھواں یومِ دفاع منانے جا رہے ہیں اور اس موقع پر جنرل ایوب کی تقریر کے حوالے بھی دیے جائیں گے جو انھوں نے ۶ ستمبر کو کی تھی اور ہم میں سے بہت سے اس کو سن کر خوب دادِ تحسین ڈونگرے برسائیں گے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ جنگِ ستمبر کے بارے میں جو کچھ عوام کو بتایا جانا چاہیے تھا کبھی بھی نہیں بتایا گیا۔ اس قوم کے کرتا دھرتاوں نے جو ہر سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں ہمیشہ قوم کو اندھیروں میں رکھا کیونکہ آمر حکمران ہمیشہ عوام کو لاعلم رکھ کر ہی اپنے اقتدار کو طوالت دیتے آے ہیں لہذا اگر عوام اپنی اور ملک کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں تو جذباتیت اور افسانوں کی دنیا سے باہر نکل کر حقائق کی روشنی میں حالات و واقعات کا جائزہ لینا سیکھیں تو ہی ہم زندگی کے مصائب کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے بقول حکیم الامت علامہ اقبال
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
زندگی کی پتھر جیسی سخت اور تلخ حقیقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں آئینہِ حیات پر جمی افسانوی بیانیے کی گرد کو صاف کر کے حقیقتوں کا سامنا کرنا ہوگا تو تبھی ہم رزم گاہِ حیات میں بحثیتِ ایک قوم کے کامیابیاں سمیٹ سکیں گے۔ جنگِ ستمبر بیشک اعلی قیادت کے سنگین غلط اندازوں کی داستان ہے لیکن ان غلطیوں کا کفارہ پاک فوج کے درمیانے درجے کے افسروں اور فوجی جوانوں نے اپنی جانیں دے کر ادا کیا اور پاکستان کو ایک خوفناک شکست سے بچا لیا جس کے لیے قوم ہمیشہ انکی شکر گزار رہے گی۔