آئی ایم ایف سے قرض معاہدے کی اصل قیمت بہت بڑی ہے، شہباز رانا

 اسلام آباد: تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے معاہدے کی اصل قیمت بہت بڑی ہے، اس نے شرط عائد کی ہے کہ دوران معاہدہ پاکستان کوئی بھی نیا اسپیشل اکنامک زون یا ایکسپورٹ پراسیسنگ زون نہیں بنائے گا۔

پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی خاطر یہ بہت بڑی شرط مان لی ہے، پاکستان کی معاشی و صنعتی پالیسیاں پہلے ہی آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہیں، نئی شرط نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا یہ خیال ہے کہ اسپیشل زونز میں دی جانے والی مراعات فائدہ مند نہیں ہوتیں، ان سے ایک مخصوص طبقے کو فائدہ ہوتا ہے اور مجموعی طور پر معیشت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، آئی ایم ایف کی یہ توجیح درست نہیں ہے۔

پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات نہیں بڑھ پا رہیں، سی پیک کے تحت چین کی انڈسٹری پاکستان لانا تھی، آئی ایم ایف معاہدے سے سی پیک کا دوسرامرحلہ سست روی کا شکار ہونے کا خدشہ ہے، اس شرط سے معاشی نمو اور چین کی انڈسٹری کو پاکستان لانے کا عمل بری طرح متاثر ہو گا، اس بات کی بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان نے یہ شرط کیوں مانی۔

انھوں نے بتایا کہ حکومت کی شاہ خرچیاں جا ری ہیں، وزیراعظم نے جمعے کے روز 20 ایم این ایز کو مختلف وزارتوں کا پارلیمانی سیکرٹری مقرر کیا ہے، حکومت نے ان ڈویژنوں اور وزارتوں کے بھی پارلیمانی سیکرٹری مقرر کر دیے ہیں، جن کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان کو ضم یا ختم کر دے گی، یہ کام پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، مگر ملک کے موجودہ مالی حالات میں ان کی گنجائش اور ضرورت نہیں تھی۔

تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان اور افغانستان میں تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، حکومت پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان آصف درانی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے، ان کو فارغ کرنیکی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، ذرائع نے بتایا ہے کہ ان کو ہٹانے کی دو تین بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں، ایک وجہ ان کے اور حکومت کے درمیان افغان پالیسی پر اختلافات ہیں، دوسری وجہ یہ تھی کہ جب سے ان کی تقرری ہوئی تھی یہ افغان طالبان کو بھی قابل قبول نہیں تھے، پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی ان کو سپورٹ نہیں مل رہی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی سفارت کار حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کر سکتا ہے، یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے، ایشو یہ ہے کہ افغانستان یا کسی بھی ملک کے ساتھ کس قسم کے تعلقات ہونے چاہئیں یہ صوبوںکا سبجیکٹ نہیں وفاقی حکومت کا ہے، پہلے یہ ہوتا تھا کہ خارجہ پالیسی کے قومی مفادات پر سیاست نہیں کی جاتی تھی، اب نقصان یہ ہے کہ اس پر بھی سیاست ہو رہی ہے جو خطرناک ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں