خود احتسابی/شوکت علی
کوپن ہیگن/ڈنمارک
چھبیسویں ترمیم اور سنیارٹی کا اصول
چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز کر دیا گیا ہے۔ اس آئینی ترمیم کے ڈرافٹ کو جس طرح خفیہ رکھا گیا اور پھر جس سرعت کے ساتھ اس کو پاس کروانے کے بعد صدر کی منظوری بھی حاصل کر لی گئی اس کی پہلی وجہ ایک جونئیر جج کو چیف جسٹس بنا کر سامنے آگئی ہے جبکہ اسکی باقی وجوھات آہستہ آہستہ سامنے آئیں گی۔ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ و ہائی کورٹس کی تقرری کے معاملے میں سنیارٹی کے اصول کو ہمیشہ مدِّنظر رکھا گیا ہے. سنیارٹی کا یہی اصول تھا جسکی وجہ سے جنرل ایوب دور میں اے۔ آر کانیلئس جو عیسائی تھے اور جسٹس بھگوان داس جو ہندو تھے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں سنیارٹی کے اصول کی پاسداری، باہمی احترام اور آئین کی پابندی کی اچھے دور کی خوبصورت مثالیں بھی موجود ہیں ۔ جسٹس اے۔آر کارنیلئیس جو جنرل ایوب کے دورِ حکومت میں انیس سو ساٹھ سے انیس سو اڑسٹھ تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے لیکن انھوں نے کچھ ماہ پہلے محض اس لیے ریٹائرمنٹ لے لی کیونکہ انکے پیچھے آنے والے سینئر موسٹ جج ایس اے رحمن بھی تقریباً انکے آگے پیچھے ہی ریٹائر ہونے والے تھے۔ کچھ ماہ پہلے ریٹائرمنٹ لینے کا مقصد یہ تھا کہ انکے بعد سینئر موسٹ جج جسٹس ایس اے رحمن کو چیف جسٹس کے عہدے پر کام کرنے کے لیے کچھ زیادہ وقت مل جاۓ گا۔ جنرل ایوب کے وزیر قانون ایس ایم ظفر اس واقعہ کو یاد کرتے ہوۓ اس دور کو “باہمی احترام اور عمدہ روایات کا دور” قرار دیتے ہیں۔ تو کیا یہ دور ہم سے رخصت ہوچکا ہے؟
ایک بات جس کو مدِّ نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ ۱۹۷۳ء کے آئین میں پانچویں ترمیم تھی جس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت پانچ سال اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت چار سال مقرر کی تھی ۔ یہی وہ ترمیم تھی جس کے تخت کسی بھی عدالت کے جج کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کیا جاسکتا تھا اور انکار کی صورت میں جج کو مستعفی ہونا پڑتا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو عدلیہ کا اپنے کنٹرول میں کرنے کے راستے پر گامزن تھے اور ایسا کرنے کے لیے انھوں نے اپنے ہی بناۓ ہوۓ آئین میں ضرورت کے مطابق ترامیم کیں۔ اسکی مثال پانچویں اور چھٹی ترامیم ہیں۔ پانچویں ترمیم کے مطابق اگر کوئی چیف جسٹس اپنے عہدے کے معیاد پوری کر لیتا تو چاہے وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو نہ بھی پہنچا ہوتا تو اسے ریٹائر ہونا پڑتا تھا اور اسی ترمیم کے باعث اسوقت کے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار اقبال اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس غلام صفدر شاہ اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے پر ریٹائرمنٹ کی عمر تک نہ پہنچنے کے باوجود ریٹائر ہونا پڑا لیکن جب بھٹو کے قریبی دوست سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی کو تھوڑی سی مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو بھٹو نے ان پر خاص عنایت کرتے ہوۓ آئین میں چھٹی ترمیم کر دی۔ جسٹس یعقوب علی چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ابھی اپنے عہدے پر بمشکل ڈیڑھ سال ہی ہوۓ تھے کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے۔ انھوں نے بھٹو سے مسلسل اپنے چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد پوری کرنے کے لیے زور ڈالنا شروع کر دیا اور بھٹو نے اپنے قریبی جج کو نوازنے کے لیے آئین میں چھٹی ترمیم میں اس شق کو شامل کر دیا کہ کوئی چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی اپنے عہدے کی معیاد پوری ہونے تک چیف جسٹس رہ سکتا ہے۔ جسٹس یعقوب علی یہ بات بھول گئے کہ جب چیف جسٹس کے عہدے کی کوئی معیاد نہیں تھی تو بہت سے چیف جسٹس انتہائی مختصر مدت کے لیے بھی اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد ریٹائر ہوۓ تھے لیکن آئین میں چیف جسٹس کے عہدے کی پانچ سالہ حد نے جسٹس یعقوب کو اس حرص میں مبتلا کیا کہ وہ اپنے چیف جسٹس کے عہدے کے پانچ سال پورے کریں اور یوں ریٹائر ہونے تک انکی عمر اڑسٹھ سال ہو چکی ہوتی جو کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر سے تین سال زائد بنتی تھی اور یوں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم پاکستان کی عدلیہ میں مداخلت کی خواہش نے اکثر عجیب و غریب صورتحال پیدا کر دیں۔ مستقبل میں اسی قسم کی صورتحال چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو پیش آنے والی ہے کیونکہ وہ جونئیر جج ہونے کی وجہ سے چیف جسٹس بنے ہیں تو اپنے عہدے کی معیاد پوری ہونے پر وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو نہیں پہنچے ہونگے تو کیا وہ اسوقت ریٹائر ہوکر پینشن پر چلے جائیں گے؟ یا ایکسٹینشن کے خواہشمند ہونگے یا چیف جسٹس کے عہدے سے اترنے کے بعد بحثیتِ جج سپریم کورٹ میں اپنی خدمات جاری رکھیں گے اقر اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا وہ انھیں تنخواہ و مراعات چیف جسٹس کے عہدے کے مساوی ہی دی جائیں گی؟ یا وہ سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج کے سکیل کے مطابق تنخواہ لیں گے؟ ان سب سوالوں کا جواب وقت آنے پر ہی ملے گا یا پھر ہوسکتا ہے اسوقت آئین کسی نئی ترمیم کی زد میں ہو۔
چیف جسٹس کے عہدے پر تقرر کے لیے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت نے ۱۹۹۷ء میں سنیارٹی کے اصول کو ترجیح دینے کا فیصلہ سنایا تھا لیکن صورتحال کی ستم ظریفی دیکھیں کہ خود جسٹس سجاد علی شاہ کو وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے سنیارٹی کے اصول کو پسِ پشت ڈالتے ہوۓ چیف جسٹس بنایا تھا تو سنیارٹی کے اصول کی پابندی کا فیصلہ ایک ایسے جج کی طرف سے آیا جو خود اس اصول کی خلاف ورزی کر کے جج بنا تھا۔ جسٹس سجاد علی شاہ اس فیصلے کو دینے کے بعد اگر استعفی دے دیتے تو وہ عدلیہ کی تاریخ میں ایک بہترین مثال قائم کر جاتے۔ اگرچہ انھوں نے ایسا نہیں کیا لیکن پھر بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو انتہائی مثبت فیصلہ قرار دیا جاسکتا تھا۔ اب پھر ۱۹۷۳ء کے آئین میں چھبیسویں ترمیم نے سنیارٹی کے اصول سے انحراف کی راہیں کھول دی ہیں جس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کے انتخاب کا فیصلہ ایک پارلیمانی کمیٹی کیا کرے گی جس میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہونگے جو اس بات کا فیصلہ کیا کریں گے کہ کس جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کیا جاۓ اور اس کمیٹی نے اپنے پہلے ہی انتخاب میں سینئر ججوں کو نظر انداز کرتے ہوۓ ایک جونئیر جج کو چیف جسٹس بنا دیا ہے۔ سنیارٹی کے اصول کی پیروی بغیر کسی سیاسی مداخلت کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنا دیا کرتی تھی لیکن چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد مستقبل میں ہر بار چیف جسٹس کی نشست کی خالی ہونے پر کھسر پھسر ہونا شروع ہو جاۓ گی، ایک مچھلی بازار لگا کرے گا، ججز کے درمیان عہدے کے حصول کے لیے مقابلہ شروع ہوسکتا ہے اور یوں عدلیہ میں “باہمی احترام اور عمدہ روایات” قصہ پارینہ بن جائیں گی۔۔