سارہ قتل کیس فیصلہ ؛ والد عرفان شریف کو40 برس، ان کی اہلیہ بینش بتول کو 33 برس جبکہ چچا کو سولہ برس جیل میں گزارنا ہوں گے

برطانیہ کی ایک عدالت نے 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر ان کے پاکستانی نژاد والد اور سوتیلی والدہ کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
سارہ کے والد عرفان شریف کو سزا سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ انھیں کم از کم 40 برس جیل میں گزارنا ہوں گے جبکہ ان کی اہلیہ بینش بتول کو 33 برس جیل میں گزارنا ہوں گے۔

سارہ کے چچا اور عرفان شریف کے بھائی فیصل ملک کو اس کیس میں قتل کے الزام میں تو نہیں تاہم ایک بچے کی موت کا سبب بننے یا ایسا ہونے دینے پر مجرم قرار دیا گیا اور انھیں اس کے لیے 16 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
یاد رہے کہ سارہ شریف کی زخموں سے چُور لاش گذشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی۔ استغاثہ کے مطابق سارہ پر ’شدید اور مسلسل تشدد‘ کیا گیا تھا۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران چھ دن تک سارہ کے والد عرفان شریف نے تمام الزامات سے انکار کیا تھا تاہم مقدمے کی کارروائی کے ساتویں روز انھوں نے ڈرامائی طور پر اعتراف جرم کر لیا تھا۔

عدالت کے روبرو سارہ شریف کے والد نے اعتراف کیا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو کئی ہفتے تک متعدد بار پرزور طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’سارہ میری وجہ سے مری۔
منگل کو جب عدالت میں مجرمان کو سزا سنائی گئی تو کمرہ عدالت میں موجود پبلک گیلری میں چند افراد کی جانب سے تالیاں بجائی گئیں تاہم جج نے اس موقع پر تمام افراد کو خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا۔
طویل سزائیں سنائے جانے پر عرفان اور بینش کی جانب سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا اور وہ کمرہ عدالت میں موجود کٹہرے میں زمین کی جانب تکتے رہے۔
سزا سنائے جانے کے عمل کے دوران ایک موقع پر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سارہ کی سوتیلی والدہ بینش بتول رو پڑیں گی
تاہم وہ لگاتار زمین پر ہی تکتی رہیں۔
دوران سماعت جج نے سارہ کو ’خوبصورت چھوٹی بچی‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ سارہ کی ماں کے مطابق وہ ’ہمیشہ مسکراتی رہتی تھیں۔

جج نے کہا ’سارہ پر ہونے والا تشدد اس کے لیے ایک معمول بن گیا تھا۔ وہ اپنی ساری زندگی اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتی تھی جبکہ عرفان شریف اور ان کی اہلیہ بینیش بتول نے سارہ کو یہ احساس دلایا کہ وہ اس برتاؤ کی مستحق ہیں۔‘
جج نے سارہ شریف کے والد عرفان شریف، سوتیلی ماں بینیش بتول اور چچا فیصل ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ آپ تینوں اس میں ملوث تھے۔
جج نے عرفان شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے سارہ کے خلاف تشدد کی اپنی مہم سے واضح طور پر بہت زیادہ اطمینان حاصل کیا۔‘
جج نے سارہ کی سوتیلی ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے عرفان شریف کی جانب سے سارہ پر تشدد میں ان کا ساتھ دیا اور اسے چھپانے میں بھی مدد کی۔
جج نے یہ بھی کہا کہ ’بتول نے سارہ کے لیے ایمبولینس نہیں بلائی بلکہ وہ پاکستان فرار ہو گئیں اور انھیں اس کا کوئی پچھتاوا بھی نہیں۔‘
جج نے کہا کہ بتول ’سارہ کو قربان کرنے کے لیے تیار تھیں‘ اور یہ کہ سارہ ان کی بیٹی نہیں تھیں تو اس لیے انھیں سارہ کی فکر بھی نہیں تھی۔
جج نے یہ بھی کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں عرفان شریف اور بینش بتول سارہ کو باندھے رکھنے میں مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سارہ کی زندگی کے آخری ہفتوں میں انھیں باندھ کر رکھا گیا اور ان کے سر پر پلاسٹک بیگ چڑھا دیا جاتا۔

کراؤن پراسیکیوشن سروس کی لیبی کلارک نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہم میں سے کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا کہ سارہ کے ساتھ اس کی مختصر زندگی کے آخری چند ہفتوں میں کتنا خوفناک اور سفاکانہ سلوک ہوا۔ سارہ کو لگنے والی چوٹیں بہت خوفناک تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سارہ کی موت کے بعد 999 پر کال کرنے کی بجائے ان تینوں افراد نے فوری طور پر ملک سے فرار ہونے کا منصوبہ بنایا۔ انھوں نے صرف اپنے بارے میں سوچا کہ وہ کسی طرح بحفاظت پاکستان پہنچ جائیں اور پولیس کو سارہ کی موت کے بارے میں لا علم رکھا۔‘
واضح رہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سارہ کے جسم پر ’انسانی دانتوں سے کاٹے جانے کے نشانات سمیت گرم استری اور گرم پانی سے آنے والے زخموں کے نشان‘ بھی تھے۔
اس سے قبل پراسیکیوٹر وکیل ایملن جونز نے عدالت کو بتایا تھا کہ خاندان کے گھر کے باہر سے خون آلود کرکٹ بیٹ، ایک دھاتی ڈنڈا، ایک بیلٹ اور رسی سمیت ایک پن ملی جس پر سارہ کا ڈی این اے پایا گیا۔
سارہ شریف 11 جنوری 2013 کو سلوو میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ان کے والد عرفان شریف پاکستان سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ آئے اور 2009 میں ووکنگ میں انھوں نے سارہ کی والدہ اولگا ڈومن سے شادی کی تھی۔
سارا کے قتل کا واقعہ سامنے آنے سے قبل عرفان شریف کے ساتھ سارہ کی سوتیلی ماں بینیش بتول، ان کے دیگر پانچ بچے اور سارہ کے چچا فیصل ملک ساتھ رہا کرتے تھے۔

سارہ شریف کی ہلاکت کی تحقیقات میں پولیس کو پوچھ گچھ کے لیے مطلوب ان کے والد، سوتیلی والدہ اور چچا کو پاکستان سے برطانیہ پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
سرے پولیس کے مطابق یہ تینوں افراد سارہ کی ہلاکت سے قبل ووکنگ میں رہائش پذیر تھے تاہم پولیس کو سارہ کی میت ملنے سے ایک روز قبل یہ پاکستان آ گئے تھے۔
پاکستان پہنچنے کے بعد سے سارہ کے والد، سوتیلی والدہ اور چچا روپوش ہو گئے تھے اور حکام ان کی تلاش میں سرکرداں تھے۔
اسی دوران پانچ ستمبر 2023 کو سارہ شریف کے والد اور ان کی سوتیلی والدہ نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ وہ برطانیہ میں حکام کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس فوٹیج میں سارہ کے والد عرفان خاموش دکھائی دے رہے تھے جبکہ ان کی سوتیلی والدہ بینش بتول کو ایک نوٹ بُک سے پڑھ کر بیان دیتے دیکھا جا سکتا تھا۔
سارہ کی سوتیلی والدہ نے اپنے اس ویڈیو پیغام میں سارہ کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا تھا اور اس حوالے سے دو جملوں میں انتہائی مختصر بات کی تھی۔
بینش بتول نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’ہمارے روپوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستانی پولیس تشدد کر کے ہمیں مار ڈالے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں