بیٹی کے قتل کے پاکستانی نژاد برطانوی مجرم عرفان شریف پر جیل میں حملہ
برطانوی میڈیا کی جانب سے جمعے کے روز بتایا گیا کہ اپنی دس سالہ بیٹی سارہ شریف کے قتل کے جرم میں سزا پانے والے مجرم عرفان شریف کو جیل میں چند قیدیوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے برطانوی میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ سارہ شریف قتل کیس میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے مجرم اور مقتولہ بچی کے والد کو قیدیوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ برطانیہ میں قتل کے اس کیس کے تناظر میں نہ صرف شدید بحث دیکھی گئی تھی بلکہ عوامی سطح پر شدید غصہ بھی پایا جاتا ہے۔
برطانوی اخبار سن کی ایک رپورٹ بتایا گیا ہے کہ 43 سالہ عرفان شریف پر لندن کی بلمارش جیل میں دو قیدیوں نے حملہ کیا، جہاں وہ اس قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، قیدیوں نے ٹونا مچھلی کے ایک ڈبے کے تیز دھار ڈھکن کی مدد سے یہ حملہ کیا، جس سے شریف کی گردن اور چہرے پر زخم آئے ، جس کے بعد انہیں جیل کے اندر ہی طبی امداد فراہم کی گئی۔
جیل کے ایک ترجمان نے کہا کہ پولیس یکم جنوری کو بلمارش جیل میں ایک قیدی پر حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ جیل ترجمان نے تاہم اس بابت مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
دوسری جانب لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق ایک 43 سالہ شخص اس حملے میں زخمی ہوا، تاہم یہ زخم جان کے لیے خطرہ نہیں۔
واضح رہے کہ عرفان شریف اورسارہ کی سوتیلی والدہ بینش بتولکو گزشتہ ماہ اس بچی کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس مقدمے میں ان دونوں مجرمان کی جانب سے بچی کے ساتھ بدترین تشدد اور شدید نوعیت کی بدسلوکی کا بھی پتا چلا تھا۔ مقدمے کے دوران انکشاف ہوا تھاکہ سارہ کو چھ سال کی عمر سے ہی خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
عدالت نے مجرم عرفان شریف کو کم از کم 40 سال کی قید کی سزا سنائی تھی جبکہ 30 سالہ بتول کو کم از کم 33 سال کی سزا کاٹنا ہے۔
اگست 2023 میں سارہ شریف کی لاش ملی تھی، جس پر دانتوں کے نشان اور دیگر زخم تھے۔ مقدمے کے ریکارڈ کے مطابق اس کے جسم کی کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور سارہ کے جسم پر استری اور کھولتے ہوئے پانی سے جلائے جانے کے نشانات بھی موجود تھے۔
سارہ کے چچا 29 سالہ فیصل ملک کو سارہ کی موت کا سبب بننے یا اس قتل کا انسداد نہ کرنے پر 16 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ سارہ کی موت کے اگلے دن یہ تینوں افراد جنوب مغرب لندن میں واقع اپنے گھر سے فرار ہو کر پاکستان چلے گئے۔
ایک ماہ تک مفرور رہنے کے بعد یہ تینوں برطانیہ واپس پہنچے تھے مگر انہیں لندن پہنچتے ہی پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔