تاخیر کے بعد غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ نافذ العمل، لڑائی رک گئی

اسرائیل کے 15 ماہ سے جاری حملے کے نتیجے میں غزہ تباہ ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں تقریبا 47 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ پٹی میں جنگ بندی کا معاہدہ اتوار کو تقریباً تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد نافذ العمل ہوگیا، جس نے 15 ماہ پر محیط اسرائیلی حملے کو روک دیا، جو مشرقِ وسطیٰ میں تباہی اور زبردست سیاسی تبدیلی کا باعث بنا۔

غزہ کے رہائشیوں اور ایک طبی کارکن نے بتایا کہ انہوں نے جنگ بندی کے نافذ ہونے سے تقریباً آدھے گھنٹے پہلے سے کوئی نیا حملہ یا فوجی کارروائی نہیں سنی۔

فلسطینی طبی کارکنوں کے مطابق، اسرائیلی فضائی اور توپ خانے کے حملوں نے جنگ بندی کے وقت صبح 6:30 جی ایم ٹی سے لے کر اس کے حقیقی اطلاق کے وقت صبح 9:15 جی ایم ٹی تک 13 فلسطینیوں کو شہید کیا۔

اسرائیل نے تاخیر کا الزام حماس پر لگایا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ فلسطینی گروپ معاہدے کے تحت رہا کیے جانے والے پہلے تین مغویوں کے ناموں کی فہرست فراہم کرنے میں ناکام رہا۔

حماس نے تاخیر کو ”تکنیکی وجوہات“ قرار دیا، لیکن تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

اس معاملے سے واقف ایک فلسطینی عہدیدار، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کہا کہ تاخیر اس لیے ہوئی کیونکہ ثالثوں نے جنگ بندی کے نفاذ سے پہلے 48 گھنٹوں کی ”خاموشی“ کی درخواست کی تھی، لیکن ڈیڈ لائن تک جاری اسرائیلی حملوں نے فہرست بھیجنا مشکل بنا دیا۔

ڈیڈ لائن کے دو گھنٹے بعد، حماس نے کہا کہ اس نے ناموں کی فہرست بھیج دی ہے، اور اسرائیلی حکام نے وصولی کی تصدیق کی۔

حماس نے جن مغویوں کو اتوار کے روز رہا کرنا تھا، ان کے نام رومی گونین، دورون اسٹین بریچر، اور ایملی داماری بتائے۔

اسرائیل نے فوری طور پر ان ناموں کی تصدیق نہیں کی۔

کافی تاخیر سے ہونے والا جنگ بندی معاہدہ اسرائیلی حملوں کو ختم کرنے میں مدد دے سکتا ہے، جو غزہ پر حماس کے حملے کے بعد شروع ہوئے، جس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا، اور اسرائیلی حکام کے مطابق، تقریباً 1200 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔

اسرائیل کی جوابی کارروائی نے غزہ کے بیشتر حصے کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا اور غزہ میں مقیم صحت حکام کے مطابق تقریباً 47,000 فلسطینیوں کو شہید کیا۔

اس جنگ نے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور اس کے حریف ایران کے درمیان بھی تنازعہ پیدا کر دیا، جو حماس اور خطے میں دیگر اسرائیل مخالف اور امریکہ مخالف ملیشیا فورسز کی حمایت کرتا ہے۔

مغویوں کی فہرست اور آخری لمحات کے حملے

جنگ بندی کے نفاذ کے طے شدہ وقت 6:30 جی ایم ٹی سے پہلے، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ جنگ بندی اس وقت تک نافذ نہیں ہو سکتی جب تک حماس اتوار کو رہا کیے جانے والے مغویوں کے نام فراہم نہ کرے۔

اسرائیلی فوجی ترجمان نے اتوار کو الگ بیانات میں کہا کہ ان کے طیارے اور توپ خانے نے غزہ کے شمالی اور وسطی علاقوں میں ”دہشت گردی کے اہداف“ کو نشانہ بنایا، اور کہا کہ فوج اس وقت تک غزہ پر حملے جاری رکھے گی جب تک حماس جنگ بندی کی شرائط پوری نہیں کرتی۔

فلسطینی سول ایمرجنسی سروس نے کہا کہ اسرائیلی حملوں میں کم از کم 13 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔

طبی کارکنوں نے بتایا کہ غزہ شہر کے علاقے زیتون پر ٹینکوں سے فائرنگ ہوئی اور شمالی شہر بیت حانون میں بھی فضائی حملے اور ٹینک سے فائر ہوئے، جس کی وجہ سے جنگ بندی کی توقع میں وہاں واپس آنے والے رہائشی بھاگ نکلے۔

اسرائیلی فوج نے ایک علیحدہ بیان میں کہا کہ جنوبی اسرائیل کے سدیروت علاقے میں سائرن بجنا ایک غلط الارم تھا۔

حماس کے حامی میڈیا نے اتوار کی صبح اطلاع دی کہ اسرائیلی فورسز غزہ کے رفح کے علاقوں سے مصر اور غزہ کے درمیان فیلڈلفی کوریڈور کی طرف واپس جا رہی ہیں۔

تین مراحل پر مشتمل معاہدہ

یہ تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی معاہدہ مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں کئی مہینوں کی بات چیت کے بعد ہوا، اور یہ امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کی 20 جنوری کی حلف برداری سے کچھ پہلے سامنے آیا۔

اس کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں تک جاری رہے گا، جس دوران باقی 98 مغویوں میں سے 33 – جن میں خواتین، بچے، 50 سال سے زائد عمر کے مرد، بیمار اور زخمی شامل ہیں – کو تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں اور حراستی افراد کے بدلے رہا کیا جائے گا۔

جنگ کا اختتام؟

جنگ بندی کا مقصد جنگ کا مکمل خاتمہ ہے، لیکن یہ آسانی سے دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔

حماس، جو تقریباً دو دہائیوں سے غزہ پر حکومت کررہی ہے، نے اپنی اعلیٰ قیادت اور ہزاروں جنگجوؤں کو کھونے کے باوجود زندہ رہنے کی صلاحیت دکھائی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں