پیکا: برقی جرائم کی روک تھام کا ڈریکونین قانون

خود احتسابی/شوکت علی

پیکا: برقی جرائم کی روک تھام کا ڈریکونین قانون

مہذب اور جمہوری معاشروں کی عمارت مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت پر کھڑی ہوتی ہے ان میں سے اگر کوئی ایک ستون بھی کمزور پڑے تو عمارت کے زمین بوس ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک نظام کے اندر ان اداروں کی مضبوطی سے مراد ان کا اپنی اپنی حدود کے اندر رہتے ہوۓ کام کرنا ہے مثلاً مقننہ کا کام قانون سازی اور انتظامیہ کا کام اسکا نفاذ ہے جبکہ عدلیہ کا کام یہ ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ آیا یہ دونوں ادارے آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوۓ کام کر رہے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہیں کر رہا۔ چوتھے ستون یعنی صحافت کا کام ان سب سے زیادہ اہم ہے کہ وہ عوام کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رکھے اور جو کچھ ہو رہا ہو اسکے متعلق عوامی راۓ کو ابھارے اور منظم کرے۔ مطلق العنان حکمران اور فوجی آمر جمہوریت کے اس چوتھے ستون سے ہمیشہ خائف رہتے ہیں چنانچہ اس کو قابو میں رکھنے کے لیے ایسے قوانین پاس کیے جاتے ہیں جو صحافت کو پابندِ سلاسل رکھتے ہیں۔
پاکستان میں صحافت سیاسی و فوجی ہر دو حکومتوں کےدور میں زیرِ عتاب ہی رہی ہے جس میں آج تک کوئی خاص بہتری نہیں آئی بلکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب کے دور میں صحافت کی مشکیں کسنے کا جو عمل شروع ہوا وہ آج تک رکنے کو نہیں آ رہا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں ایک آزاد و خود مختار صحافت کا کردار ادا کرنے والے تین اخباروں دی پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار کی تنقید سے بچنے کے لیے ان اخباروں کو لگام ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ تینوں اخبار پراگریسیو پیپرز لمٹیڈ کے ادارے کے تخت چھپتے تھے جس کے مالک میاں افتخار الدین تھے۔ انھوں نے اپنے خونِ جگر سے ان اخباروں کی آبیاری کی تھی جبکہ دی پاکستان ٹائمز کا آغاز تو قائد اعظم کی اجازت سے ہوا تھا اور جب اس اخبار کی پہلی سالگرہ تھی تو حکومت کا ناقد ہونے کے باوجود قائد اعظم نے اخبار کے لیے نیک تمناؤں کا پیغام بھیجا تھا جو قائد اعظم کی جمہوری سوچ اور صحافت کی آزادی کی قدر کا ثبوت ہے۔ جنرل ایوب خان نے ان اخباروں کو حکومتی قبضے میں لینے کے لیے ان اخباروں میں ایسے مواد چھاپنے کا الزام لگایا جس کا مقصد عوام میں بغاوت پیدا کرنا اور قومی مفاد کے خلاف مائل کرنا تھا۔ پروگریسیو پیپرز لمٹیڈ کے مالک میاں افتخار الدین نے حکومت کو ان الزامات کا کسی بھی عدالت میں سامنا کرنے کا چیلنج کیا لیکن حکومت کی طرف سے ہمیشہ خاموشی ہی اختیار رکھی گئی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ الزام جھوٹے ہیں۔ بعد ازاں جنرل ایوب خان نیشنل پریس ٹرسٹ کے نام کا ایک ادارہ بنا کر ان اخباروں کو اس میں ضم کر دیا اور یوں حقیقی صحافت کر کردار ادا کرنے والے ان تین اخباروں کی حالت حکومت کے سدھاے ہوۓ پالتوؤں کی بن کر رہ گئی۔ جنرل ایوب خان کے دور کے انتہائی طاقتور سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر جو اس وقت نشر و اشاعت کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے ایوبی دور کے خاتمے کے بعد خود ایک اخبار ڈان کے مدیر بنے تو ایک دن یکدم ان پر یہ سنہری راز افشا ہوا کہ پاکستان میں حکومتیں پریس کی آزادی کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے جس طرح کے قوانین بناتی رہیں ہیں اسکا نتیجہ ایک مضبوط صحافت کی ترویج کی بجاۓ فکر کی غلامی اور راۓ کی تابعدار کی شکل میں سامنا آیا۔
پاکستان میں آج بھی پریس کی آزادی ایک سوالیہ نشان ہی ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ کی مختلف شکلیں مثلاً ٹک ٹاک، فیس بک اور ٹوئٹر ایسے فورمز تھے جہاں عوام اپنی راۓ کا آزادانہ اظہار کر سکتی تھی۔ پاکستان کے ارباب اختیار و اقتدار الیٹرانک میڈیا کی وسعت اور اثر پذیری سے اس قدر خائف ہوچکے ہیں کہ انھوں نے جدید دور کی ان سہولتوں کے غلط استعمال کا عذر بنا کر عوام کی راۓ کو محدود، تابعدار، فدویانہ اور بے اثر بنانے کے لیے پیکا ایکٹ ۲۰۲۵ منظور کیا۔ اس ایکٹ کا مقصد تو یہی بتایا گیا کہ عوام کو گمراہ کرنے کے کیے جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کا محاسبہ کرنا ہے لیکن اس ایکٹ کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس احتجاج پر ہے لیکن ہم میں سے کسی نے بھی اس احتجاج کی کوئی میڈیا کوریج نہیں دیکھی ہوگی۔ اس ایکٹ کا مقصد سوشل میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے اگرچہ حکام کی طرف سے دعوی ہے کہ اس بل کا مقصد جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے والوں کے عمل کو مجرمانہ فعل قرار دینا ہے تاکہ پاکستانی عوام کو انکے ہاتھوں گمراہ ہونے سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اس ایکٹ کا نشانہ بننے والے افراد کو تین سال تک قید اور جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ یہ قانون پہلے سے حکومت کی مضبوط گرفت میں آے ہوۓ ڈیجیٹل میڈیا کے گرد شکنجہ مزید سخت کرنے کی کوشش ہے۔ اس بل پر کوئی بحث اور صلاح مشورہ کیے بغیر اسے ایوان میں پیش کر دیا گیا جس بل کا مقصد ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن حکام کے اختیارات میں بذریعہ مقتدرہ سوشل میڈیا حفظ و ضابطہ (Social Media Regulation and Protection Authority) مزید اضافہ کرنا ہے۔ یہ بل حکام کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی مبہم مواد کو سوشل میڈیا پر بلاک یا اسکا صفایا کر دیں جو آزادی راۓ انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرے۔
اگر ہم اس بل کے مقاصد دیکھیں تو یہ انتہائی نیک اور اعلی نظر آئیں گے لیکن یہ جبر کی ایسی فضا قائم کرے گا جس میں لوگ اپنی راۓ دیتے ڈریں گے کہ نجانے انکی کونسی بات پر پیکا کا قانون انھیں گردن سے آ دبوچے۔ اس ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد وہی محب وطن اور پر امن کہلاۓ گا جو اہلِ اقتدار اور مقتدرہ حلقوں کے ہر کام پر آنکھیں موند لیں اور اگر لب کشائی کرے بھی تو حکومتی اقدامات پر واہ واہ کرنے کے لیے بصورت دیگر پیکا اسکی زبان بندی کرے گا۔ اس قانون کا مقصد عوام کی ڈیجیٹل نگرانی اور اس میں مداخلت کرنا ہے اور ان حکومتی اقدامات میں انسانی حقوق کو کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس پیکا بل کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور سول سوسائٹی کی شمولیت سے با معنی تبادلہ خیال کے ذریعے اس بل کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا تاہم حکومت نے ۲۳ جنوری ۲۰۲۵ کو سول سوسائٹی، میڈیا اور حزبِ اختلاف کی مخالفت کے باوجود اس کو قومی اسمبلی سے منظور کروا لیا اور اب اس قانون کی بنیاد پر حکومت صحافیوں، انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے خدشات کو درست ثابت کر رہی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس قانون کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور پیکا ترمیم کو صحافت پر مارشل لا لگانے کے مترادف قرار دیا ہے اور صحافیوں کی اس تنظیم کی طرف سے کئی جگہوں پر بھوک ہڑتال بھی کی گئی۔ صحافیوں کی تنظیم کے صدر افضل بٹ نے کہا ہے کہ تنظیم نے اس کالے قانون کے خلاف دوہری جدوجہد شروع کر دی ہے جس میں ایک طرف تو سڑکوں پر احتجاج اور بھوک ہڑتالیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف عدالتوں میں قانون جنگ بھی جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امید ہے عدالت اس قانون کی ان دفعات کا خاتمہ کر دے گی جو انسانی حقوق، آئینی و شہری آزادیوں کی روح کے خلاف ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئین جن بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے کیا کوئی نیا قانون بنا کر ان حقوق کو محدود یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے کسی بھی جمہوری کلچر میں غیر متبدل ہونے کے حوالے سے پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس محمد منیر کے ایک مقدمے جیندر کشور چوھدری بنام حکومت مشرقی پاکستان میں دیے گئے ریمارکس ہیں۔ جسٹس منیر کہتے ہیں کہ
“بنیادی حقوق کا تصور ہی یہ ہے کہ آئین کی طرف سے
دیے گئے حقوق کی حثیت سے، اسے قانون کے ہاتھوں
سلب نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔اور۔۔۔۔آئین تیار کرنے
والوں کا یہ کہنا کہ کوئی بنیادی حق ہے اور اس کے باوجود
سلب کیا جا سکتا ہے شہری کے ساتھ ایک فراڈ ہے۔”
(بحوالہ صحافت پابندِ سلاسل/ضمیر نیازی)
پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس کے ان ریمارکس کی روشنی میں جنھوں نے پاکستان کے پہلے مارشل لا کو نظریہ ضرورت کی روشنی میں درست قرار دیا تھا کیا ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق نظریہ ضرورت کے تخت بھی معطل نہیں کیے جا سکتے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ عوام سے فراڈ کر رہا ہے تو کیا پیکا ایک قانون سے کہیں زیادہ عوام تک سچ پہنچانے کے پردہ میں ایک فراڈ ہے؟ جو انکے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے جا رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں