خود احتسابی/شوکت علی
ریڈیو ہموطن/کوپن ہیگن
بنیادی سیاسی حقوق اور ریاست
ہمارے ہاں آج کل ایک عجیب سیاسی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے کہ اگر کوئی اپنے بنیادی سیاسی حقوق کا استعمال کرتا ہے تو اسے ریاست کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے جو ملک میں بدامنی پھیلانا چاہتا ہے چنانچہ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ بنیادی سیاسی حقوق کیا ہیں؟ اور ریاست کا رویہ انکی طرف کیا ہونا چاہیے؟
پولیٹکس یعنی سیاسیات میں کسی بھی شخص کے بنیادی سیاسی حقوق سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ وہ بغیر کسی خوف، دباو یا امتیازی سلوک کے سول و سیاسی معاملات میں حصہ لے سکے اور اپنی آزادانہ راۓ کا اظہار کرنے میں اسے کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر وہ کسی معاشرے یا ریاست میں کسی خوف کے باعث ایسا کرنے سے محروم ہے تو اسے اسکے سیاسی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور ایسی ریاست یا معاشرہ قطعا جمہوری ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا۔ کون سے حقوق بنیادی سیاسی حقوق میں شمار ہوتے ہیں ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
جمہوریت میں سب سے پہلا بنیادی سیاسی حق ووٹ ڈالنے کا ہے یعنی عوام کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوۓ جس سیاسی پارٹی کو اپنے لیے مفید سمجھتے ہیں اسے حکومت کرنے کے لیے منتخب کریں۔ منتخب حکومت اپنا وقت پورا کرے گی اور اگر اسکے بعد عوام سمجھتی ہے کہ وہ حکومت انکی امیدوں پر پوری نہیں اتری تو وہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کو اقتدار کے لیے منتخب کر سکتے ہیں۔ اگر کسی منتخب حکومت کی کارکردگی انتہائی خراب ہے تو اسے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے اور یہ سارا عمل کسی بھی ادارے کی مداخلت کے بغیر ہونا چاہیے تبھی یہ سیاسی جمہوری عمل کہلاۓ گا۔ اگر کوئی ادارہ خاص طور پر اسٹبلشمنٹ یا کوئی فوجی جرنیل اس میں کسی قسم کی مداخلت کرتا ہے تو یہ جمہوریت اور عوام کے بنیادی سیاسی حق کے خلاف ہوگا کیونکہ فوج یا کسی بھی جرنیل کو ایسا کرنے کا حق نہ تو عوام نے دیا ہے اور نہ ہی آئین نے۔
دوسرا بنیادی سیاسی و جمہوری حق یہ ہے کہ ایک شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا رکن بنے اور اسکا دفتر کھول سکتا ہے۔
تیسرا حق کہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے فورم سے سیاسی جلسے کر سکتا ہے، ریلیز میں شرکت کر سکتا ہے اور سیاسی احتجاج کا حصہ بن سکتا ہے۔
چوتھا حق جو اسے حاصل ہے کہ اسے بلا قصور گرفتار ، نظر بند یا جلاوطن نہیں کیا جاسکتا۔
پانچواں حق اپنی راۓ کے اظہار کا حق ہے اور اس حق کو کسی بھی قسم کی قانون سازی کے ذریعے محدود یا معطل نہیں کیا جاسکتا۔
چھٹا حق کہ اسے اپنے ملک کی گورنمنٹ میں شمولیت کا حق حاصل ہے جس کی ایک صورت تو ووٹ کے استعمال کا حق ہے اور دوسرا اسے بلکل عوامی سطح تک لانے کے لیے بلدیاتی انتخابات ہیں جو کہ پاکستان میں کئی کئی سالوں تک ہوتے ہی نہیں جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اقتدار کی راہداریوں کے پسِ پردہ قوتیں سیاسی عمل کو انتہائی بنیادی سطح تک لاکر عوام کی سیاسی نشونما ہونے ہی نہیں دینا چاہتے۔ ان کے لیے یہ بڑا آسان ہوتا ہے کہ وہ صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہوۓ اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ فوجی ہی نہیں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو بھی سوٹ کرتا ہے۔
مختصرا بیان کیے گے ان بنیادی سیاسی حقوق میں سے کسی بھی ایک حقوق کی پامالی کو موجودگی کسی بھی حکومت یا ریاست کے جمہوری ہونے کے دعوی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ ان میں سے ایک حق کہ کسی کو بلا قصور گرفتار نہیں کیا جاۓ گا انتہائی بنیادی حثیت رکھتا ہے اور جو بھی طاقتیں کسی سیاسی مخالف کو راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں وہ اس حق سے بخوبی آگاہ ہوتی ہیں چنانچہ وہ جس شخص کی مخالفت و مزاحمت سے پریشان ہوتی ہیں اس پر کوئی الزام دھر دیا جاتا ہے، اس پر جھوٹا مقدمہ بنا کر اسے سیاست سے بیدخل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس حربے کی سب سے بڑی مثال پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب کا قانون “ایبڈو” الیکٹیو باڈیز ڈسکوالیفیکیشن آرڈر تھا جس کے تخت وزراء سے لیکر بلدیاتی سطح تک کے ہزاروں سیاستدانوں کو سیاست سے بیدخل کر دیا گیا۔ ان سیاستدانوں پر کس قسم کے مقدمات بناۓ گے انکا ذکر جنرل ایوب خان کے سیکرٹری قدرت اللّٰہ شہاب کی کتاب میں بیان کیے گئے واقعہ سے ہوتا ہے۔ قدرت اللّٰہ شہاب بتاتے ہیں کہ جب ان سیاستدانوں پر بناۓ جانے والے مقدمات کی فائل جنرل ایوب کو دکھائی گئی تو وہ مقدمات کی تفصیل دیکھ کر بڑے حیران ہوۓ کہ اتنے چھوٹے اور معمولی مقدموں کا سامنا کرنے کی بجاۓ “یہ ساٹھ ستر جغادری سیاستدان دم دبا کر بھاگ کیوں گئے۔ مردانگی سے کام لے کر ایبڈو کا مقدمہ کیوں نہ لڑا۔”
انھیں جواب دیا گیا کہ “شاید مارشل لا سے ڈرتے ہوں یا شاید عزت بچانے کی خاطر اپنے آپ ریٹائر ہوکر بیٹھ رہے ہوں۔” ایوب خان نے یہ جواب بے یقینی کی کیفیت میں سنا اور تردیدی انداز اختیار کرتے ہوۓ فیصلہ کن لہجے میں کہا “یہ بات نہیں ہے تمہاری باتیں انکا جرم ثابت کریں نہ کریں لیکن انکے ضمیر مجرم ہیں اور یہ بات ان کو بخوبی معلوم ہے۔” ( بحوالہ شہاب نامہ/قدرت اللّٰہ شہاب)
یعنی جنرل ایوب نے اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لی تھی کہ سیاستدان بدعنوان اور مجرم ضمیر کے حامل ہیں اسی لیے ایبڈو کے ڈر سے بھاگ گئے۔ وہ یہ سوچنے سے قاصر تھے کہ بڑے بڑے سیاستدان بکری یا بھینس چوری جیسے مقدمات پر عدالت میں حاضر ہونے سے بہتر سمجھیں گے کہ سیاست کو ہی خیر آباد کہہ دیا جاۓ۔ پاکستان میں حالات آج بھی اسی نہج پر جا رہے ہیں۔ ایک ٹالک شو میں پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رکن قومی اسمبلی نے بتایا کہ ان پر ایک مقدمہ اے ٹی ایم مشین توڑ کر بنک لوٹنے کا بھی ہے یعنی سڑسٹھ برس گزر گئے لیکن ہمارے انداز نہ بدلے۔
ریاست اور حق کے باہمی تعلق پر بات کرنے سے پہلے ہم اس بات کا تعین کر لیں کہ حق کہتے کسے ہیں؟ حق کی تعریف کرنے کے لیے ہم ڈاکٹر اے سی ایوئنگ کی کتاب The Individual the State and World Government سے حوالہ لیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ
“Powers or securities of a kind such that the individual can rightly demand of others they should normally not interfere with them.” (P:10)
“یہ اس قسم کے اختیارات و تحفظات ہوتے ہیں جن کا مطالبہ فرد دوسروں سے کرتا ہے اور جن میں عام حالات میں دوسروں کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔”
بنیادی حق کی اس تعریف میں ڈاکٹر ایوئنگ “عام حالات normally “ کہہ کر اس بات کی گنجائش چھوڑ گئے ہیں کہ مخصوص حالات میں بنیادی حق میں مداخلت کی جاسکتی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرد جو معاشرے و ریاست کی تشکیل کی بنیاد ہوتا ہے وہ معاشرے و ریاست کی تشکیل کیوں کرتا ہے؟
انسان کسی چیز کا حصہ اسی وقت بنتا ہے جب اسے ایسا کرنے میں تحفظ کا احساس محسوس ہو۔ وہ کبھی بھی ایسی چیز کا حصہ نہیں بنے گا جو اسے اسکے بنیادی حق سے محروم کر دے۔ تو کیا جب انسان کسی ریاست کا حصہ بنتا ہے تو ریاست اسکے کسی حق کو معطل کر سکتی ہے؟ اسکا سادہ سا جواب یہی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی معطل نہیں کیے جاسکتے کیونکہ انسان نے معاشرے و ریاست کی شکل میں رہنا ہی اسوقت شروع کیا جب اسے اپنے بنیادی حقوق کے خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہوا۔ معاشرے و ریاست کی تشکیل میں افرادِ معاشرہ کے اوپر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور انکے بدلے میں ریاست اپنے ذمے افراد کے حقوق لے لیتی ہے لیکن مملکت یا ریاست کوئی الگ چیز نہیں ہوتی جس سے افراد معاہدہ کرتے ہیں بلکہ وہ ایک اجتماعی ادارہ ہوتی ہے جو خود افرادِ معاشرہ کے اجتماعی ارادے کا مظہر ہوتی ہے۔اگر ریاست کا آئین ایک طرف تو کسی حق کو شہری کا بنیادی حق قرار دیں اور دوسری طرف حکومت کسی قانون کے ذریعے اسے معطل کر دے تو یہ آئین کی خلاف ورزی اور شہری کے ساتھ ایک فراڈ ہوگا۔ پاکستان میں پیکا کا قانون بنا کر پاکستان کے شہریوں کے ساتھ ایسا ہی فراڈ کیا جا رہا ہے۔ اس قانون کا مقصد تو جھوٹی و جعلی خبروں کی روک تھا ہے لیکن اس قانون سے جڑی تین سال تک قید اور جرمانے نے عام شریف شہری کو بھی اپنی راۓ دینے سے احتراز برتنے پر مجبور کر دیا ہے اور اب لوگ الیکٹرانک میڈیا مثلاً ٹک ٹاک، ٹویٹر یا فیس بک پر کوئی پوسٹ کرنے سے بھی ڈرنے لگے ہیں کہ نجانے کب کوئی پیکا کی زد میں آ جاۓ۔ ان سب باتوں کو ریاست کے مفاد کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ کیا ایسا کرنا ریاست کے لیے اخلاقی ہے؟ نکلس باردیو نے اپنی کتاب Slavery and Freedom میں ریاست اور اخلاق کے باہمی تعلق کے متعلق لکھا تھا
“that which has been considered immoral
for a person has been considered
entirely moral for the State.”
“جو بات کسی فرد کے لیے غیر اخلاقی تصور کی جاتی ہے اسے
ریاست کے لیے سراسر اخلاقی تصور کر لیا جاتا ہے”
وہ کونسی باتیں ہیں جو کسی انسان کے لیے تو غیر اخلاقی تصور کی جاتی ہیں اور جنکے سرزد ہونے پر اسے سنگین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن ریاست انھی باتوں کو خیر اور اعلی مقصد کا ذریعہ قرار دیتے ہوۓ کر گزرتی ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے
“ The state has always used evil means-
espionage, falsehood, violence,
murder: there has been distinction in
this respect in degree only; these
methods indisputably very evil; have
always been justified by a good and
exalted end in view.”
“ریاست ہمیشہ جاسوسی، جھوٹ، تشدد قتل جیسے شیطانی
طریقے استعمال کرتی ہے۔ اس میں صرف درجے کا
فرق ہوتا ہے۔ ان طریقوں کے بد ہونے میں کسی
بحث کی گنجائش نہیں ہے لیکن ان ک کا جواز خیر اور
بلند مقصد کے تناظر میں پیش کیا جاتا ہے۔”
پاکستان کے موجودہ حالات کو ریاست اور بنیادی سیاسی حقوق کے اوپر بیان کیے گئے تناظر میں دیکھیں اور سوچیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی ریاستیں ایسا کرتی ہونگی لیکن ہم تو اپنی صورتحال کے جوابدہ ہیں ناکہ دوسروں کی۔