جرمن پارلیمانی انتخابات: فریڈرش میرس کو برتری حاصل

جرمنی کے پارلیمانی انتخابات میں ملکی اپوزیشن لیڈر فریڈرش میرس نے فتح کا دعویٰ کر دیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی ملک کی دوسری طاقتور ترین جماعت بن کر اُبھری ہے۔

جرمنی میں سینٹر رائٹ کے اپوزیشن لیڈر فریڈرش میرس نے قومی انتخابات میں فتح کا اعلان کر دیا ہے جبکہ ابتدائی اور غیر حتمی نتائج کے مطابق بھی ان کے بلاک کو برتری حاصل ہے۔ کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے قدامت پسند اور چانسلرشپ کے امیدوار فریڈرش میرس نے اتوار کو اپنے پہلے بیان میں کہا کہ وہ ایسی حکومت بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، جو جلد از جلد کارروائی کرنے کے قابل ہو۔


میرس نے دارالحکومت برلن میں اپنے حامیوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے اپنے ابتدائی ردعمل میں کہا، ”آج رات ہم جشن منائیں گے اور کل سے ہم کام کرنا شروع کر دیں گے۔ باہر کی دنیا ہمارا انتظار نہیں کر رہی۔
کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کا اتحاد کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے ساتھ ہے۔ ابتدائی اور غیر حتمی نتائج کے مطابق یہ اتحاد 29 فیصد ووٹ لے کر سرفہرست ہے اور صرف تین برس سے کچھ عرصہ زائد اپوزیشن میں رہنے کے بعد دوبارہ حکومت سنبھالنے والا ہے۔


قدامت پسند میرس گزشتہ نصف صدی میں جرمنی میں چانسلرشپ کے لیے سب سے عمر رسیدہ امیدوار ہیں۔ مغربی جرمنی کے دیہی زاؤرلینڈ سے تعلق رکھنے والے کٹر کیتھولک اور کاروباری امور کے وکیل میرس کے پاس کبھی کوئی عوامی عہدہ نہیں رہا۔
ان کا نجی کمپنیوں میں ملازمت کا ایک طویل کیریئر ہے، جس میں اثاثہ جات کے انتظامات کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشن، بلیک راک میں ایک عہدے پر فرائض کی انجام دہی بھی شامل ہے۔

اے ایف ڈی دوسری طاقتور ترین جماعت
ان انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی اور مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی (متبادل برائے جرمنی) ملک کی دوسری طاقتور ترین جماعت بن کر اُبھری ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی کسی جماعت کو اتنے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔
آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کی شریک رہنما ایلیس وائیڈل نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر ان کی پارٹی اپوزیشن میں جاتی ہے تو وہ ملک کی دیگر جماعتوں کا ”پیچھا‘‘ کریں گی۔

سی ڈی یو/ سی ایس یو کے رہنما فریڈرش میرس متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت اے ایف ڈی کے ساتھ مل کر کام نہیں کرے گی۔ اسی طرح ملک کی دیگر جماعتیں بھی اے ایف ڈی کے ساتھ مل کر کام کرنے سے انکاری ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت اپوزیشن میں رہے گی۔
ایگزٹ پولز کے مطابق اے ایف ڈی کو تقریباً 20 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ابتدائی اور غیر حتمی نتائج کے بعد ایلیس وائیڈل کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت سن 2017 کی طرح اپوزیشن میں بیٹھ اپنا کام کرتی رہے گی، ”ہم اپنے ملک کے لیے سمجھدار پالیسیاں بنانے کے لیے دوسروں کا پیچھا کریں گے
وائیڈل نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے جبکہ وہ یورو اور نیٹو کے حوالے سے شکوک و شبہات کی حامل ہیں۔ وائیڈل اشتعال انگیزی اور خاص طور پر تارکین وطن کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کے لیے بھی مشہور ہیں۔

چانسلر اولاف شولس نے شکست تسلیم کر لی
جرمن چانسلر اولاف شولس نے اتوار کی شام کہا کہ وہ اس وقت تک عہدے پر رہیں گے، جب تک کہ اگلی مخلوط حکومت نہیں بن جاتی۔ ابتدائی انتخابی نتائج کے بعد ان کے سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
شولس نے واضح کیا کہ وہ نیا حکومتی اتحاد بنانے کا کام دوسروں پر چھوڑ دیں گے لیکن امکان ہے کہ نئی مخلوط حکومت میں ایس پی ڈی کو ایک جونیئر پارٹنر کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے برلن میں اپنی پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں حامیوں سے ایک مختصر تقریر میں کہا، ”اب یہ دوسروں پر منحصر ہے کہ وہ حکومت بنانے کا راستہ تلاش کریں۔
ابتدائی انتخابی نتائج کے بعد ان کے سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے
شولس نے اپنے حامیوں کو بتایا کہ ان کے لیے ”یہ ایک تلخ انتخابی نتیجہ ہے لیکن یہ ایک انتخابی شکست ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ نئے چانسلر کے آنے سے پہلے پہلے ”آخری دن تک‘‘ اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔


ایس پی ڈی 16.2 فیصد سے 16.3 فیصد کے متوقع ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر گر گئی ہے، جو کہ پارٹی کے لیے کئی دہائیوں بعد قومی انتخابات میں بدترین نتائج ہیں۔ ابتدائی اور غیر حتمی نتائج کے مطابق گرینز 12.4 فیصد سے 13 فیصد کے متوقع ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔
فی الحال چھٹے نمبر پر لنکے جماعت ہے اور اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد آٹھ فیصد سے زائد رہنے کی توقع ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں