کھاریاں ( سلیم اختر بٹ ) کبھی ٹین ایجرز کا شاعر تو کبھی حسن و عشق کا مدح سرا ،کہیں انقلاب کا منتظر تو کبھی ماضی کا نوحہ گر، کہیں انا سے اکڑا سر پھرا عاشق تو کہیں سب کچھ بھلا کر دوستی کے لیے پہل کرتا احمد فراز۔۔۔ جنہیں گذشتہ روز دنیا سے گئے چودہ برس بیت گئے مگر اُردو ادب میں وہ زندہ اور محفلوں میں اُن کا تذکرہ اب بھی جاری ہے۔
فراز نے اپنی زندگی میں کہا تھا ‘سلسلے توڑگیا وہ سبھی جاتے جاتے’ مگر جس طرح ان کا تذکرہ ادب کی محفلوں میں ہے، اسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا کہ سلسلہ ٹوٹا نہیں تجھ سے تعلق کا فراز۔
سن ساٹھ کی دہائی میں پہلے مجموعہِ شاعری سے اُردو ادب کے اُفق پر جگمگانے والا یہ ستارہ دس برس پہلے آج ہی کے دن فلکِ ادب سے ٹوٹا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ ٹوٹے تارے کی روشن کرنیں اب بھی باقی ہیں۔
حسن و عشق کے شاعر فراز کی شاعری کو جہاں ہر عمر کے شائقینِ ادب میں بے پناہ مقبولیت ملی وہیں برِ صغیر کے مشہور غزل گائیکوں نے ان کی غزلیں گا کر عام سامعین میں بھی مقبول بنادیا۔
شہنشاہ موسیقی مرحوم مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا مگر جب انہوں نے ‘رنجش ہی سہی دل ہی دکھانا کے لیے آ’ پیش کی تو پہلا مصرعہ بہت جلد عوامی حلقوں میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا۔ آج بھی اس کی یہ شہرت برقرار ہے۔
پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی احمد فراز کی شاعری کو شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ بھارتی موسیقی کی سدا بہار آواز لتامنگیشکر بھی ان کی کئی غزلیں اور گیت گاچکی ہیں۔ فراز کی ایک غزل ‘آنکھ سے دور نہ ہو، دل سے اترجائے گا’ جب لتا جی نے گائی تو اسے بہت پذیرائی ملی۔ جگجیت نے بھی فراز کی غزلیں گائی ہیں۔
پاکستان کی ملکہ ترنم میڈم نورجہاں نے ان کی کئی غزلوں کو اپنی آواز عطا کی اور یوں فراز کی غزلیں ان لوگوں تک بھی پہنچ پائیں جو پڑھنا تو نہیں جانتے تھے مگر لازوال آوازوں کی سنگت سے وہ بھی احمد فراز کے مداح ہوئے۔
میڈم نور جہاں کی گائی فراز کی غزل ‘سلسلے توڑگیا وہ سبھی جاتے جاتے’ ہندو پاک کے شائقینِ غزل میں بہت مقبول غزل خیال کی جاتی ہے۔