تحریر چوہدری انور چوہان
سابق کونسلر میاں افضال احمد جو آج ہم میں نہیں رہے اُنہیں مرحوم لکھنے کو جی نہیں چاہتا اب تک یقین کرنے کو جی نہیں مانتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ منوں مٹی کے نیچے ہمیشہ کی نیند سو گئے ہیں مگر اپنے چاہنے والوں کی نیندیں اُڑاکے وہ ہر وقت خوش رہنے والے اور ہمہ تن مصروف انسان تھے بلکہ اگر اُنہیں انسان دوست کا لقب دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا اکثر اوقات وہ اپنے ضروری کاموں کو پسِ پُشت ڈال کے دوسروں کے کام نبٹاتے دکھائی دیتے تھے اگر آدھی رات کو بھی کسی کو اُنکی ضرورت پڑی ہے تو کبھی انکار نہیں کیا اپنی ذاتی سواری پر متاثرہ پارٹی کو لانے لے جانے کا عمل ترتیب دیا بعض اوقات یہ سلسلہ کئ روز بھی جاری رہتا جب وہ پہلی دفعہ الیکش کے اکھاڑے میں اُترے تھے تو واضع اکثریت سے جیتے تھے وہ اکثر اس بات کا ذکر کرتے تھے کہ میں اپنے حلقہ کی عوام کی محبتوں کا مقروض ہوں جو ذمہ داری اُنہوں نے مجھے سونپی ہے اُسکو پورا کرنا میرا فرض ہے جبکہ حکومت کی طرف سے نہ کوئی اعزازیہ ملتا ہے اور نہ ہی کوئی دفتر اسکے باوجود وہ نہ صرف اپنے گاؤں کے لوگوں سے روابط رکھتے تھے بلکہ اُنکی شناسائ ضلع بھر میں تھی جبکہ انکے جاننے والے ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جسکا مظاہرہ اُنکی وفات کے بعد نظر آیا آج دُنیا سے گئے انہیں ایک ہفتہ سے زائد ہوگیا ہے مگر اُنکے گھر پر تعزیت کرنے والوں کا تا حال تانتا بندھا ہوا ہےمیاں افضال کے بڑے بھائی جو عرصہ دراز سے بسلسلہ روزگار ڈنمارک میں مقیم ہیں اُنکے فرسٹ کزن چوہدری فیصل اسحاق حال مقیم یو کے بمعہ فیملز اس سانحہ پر گاؤں میں آ موجود ہوئے ان لوگوں کی وطن سے دُوری میں یہاں کے تمام تر کام میاں افضال احمد کے ذمہ تھے اور یہ ذمہ داری مرحوم نے خوب نبھائی ،گاؤں کے تمام افراد جن میں بچے خواتین اور بزرگ تمام شامل ہیں اس درد کو محسوس کر رہے ہیں رب کریم انکے اہل خانہ کو یہ بھاری صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے میاں افضال احمد مرحوم کے والد گرامی صوبیدار مشتاق احمد جوکہ فوج سے ریٹائر ہیں اپنی نیک نامی اور خدمت خلق کی وجہ سے ایک نام اور مقام رکھتے ہیں بُہت با حوصلہ شخص ہیں مگر اس غم نے اُنہیں نڈھال کر دیا ہے بقول انکے کہ یہ تو اُنکے جانے کے دن تھے مگر انکے نوجوان بچے کو اس دُنیا سے جانا پڑا مگر رب کی رضا کے علاوہ کوئی چارہ نہیں خُدا تعالہ میاں افضال کی فیملی کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے چونکہ ماسؤایے صبر کے اور کوئ چارہ بھی تو نہیں ۔ہر ذی روح نے آخر کار موت کا ذائقہ چکھنا ہے کسی نے جلد کسی نے بدیر ۔
لازم تھا کہ دیکھو مرا رِستا کوی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئ دن اور