فرانس (حمید چوہدری سے ) پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی 70 ویں سالگرہ آج جوش و جذبے سے منائی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں صوبائی اور ضلع سطح سمیت دنیا بھر تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں جن میں سالگرہ کے کیک کاٹنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
بے نظیر بھٹو 1953 میں آج ہی کے دن پیدا ہوئیں، انہوں نے سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جیسی سیاسی قد آور شخصیت کے گھر آنکھ کھولی، وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔
ملک کیلئے ان کی سیاسی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں، اپنی ملک گیر عوامی مقبولیت کے سبب دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں، انہیں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ملکی سیاست کے پُرآشوب دور میں برداشت، رواداری اور پُرامن بقائے باہمی کی روایت کو بے نظیر بھٹو نے زندہ کیا۔
ایٹمی پروگرام کو ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا تو بے نظیر بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں اس کی قدم بہ قدم حفاظت کی۔ پاکستانی میزائل پروگرام ہو یا ایٹمی آبدوز کی فراہمی، ایف 16 طیاروں کا امریکہ سے معاہدہ ہو یا فرانس کے میراج 2000 طیاروں کا حصول، پاکستانی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے سے متعلق شہید بے نظیر کی خدمات تاریخ میں درج ہیں۔ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ان سے بہتر آواز کوئی نہیں اٹھا سکا، فوجی ڈکٹیٹروں کے سامنے چاہے وہ ضیاءالحق ہو یا پرویز مشرف، شہید بے نظیر بھٹو نے خاتون آہن کی طرح عوامی جذبات کی ترجمانی کی اور فوجی آمروں کو جمہوریت کا احترام کرنے پر مجبور کر دیا۔
ملکی سیاست کا یہ تابناک تارہ 2007ء کو راولپنڈی میں غروب ہو گیا جب ایک دہشت گرد حملے میں انہیں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ لیاقت باغ میں بڑے عوامی جلسے سے خطاب کر کے واپس جا رہی تھیں۔ ان کی شہادت پر ملک گیر ردعمل دیکھنے میں آیا، کارکنان کے بہتے آنسو ان کو شہید والد ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں سپرد خاک کرتے ہوئے ان کے ایسی رہنما ہونے کا ناقابل تردید ثبوت پیش کر رہے تھے کہ جس کی کوئی مثال، کوئی نظیر نہیں، وہ واقعی “بے نظیر” تھیں۔