جرمن کار ساز کمپنیاں الیکٹرک کاروں کے مسابقتی دور میں اپنے حریفوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جانے کے خدشے سے دوچار ہیں۔ کیا یورپ میں گاڑیوں کی تیاری کے لیے مشہور جرمن کمپنیاں نئے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں؟
جرمنی کی فیڈرل موٹر ٹرانسپورٹ اتھارٹی (کے بی اے) کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں الیکٹرک کاروں کا مارکیٹ شیئر ماضی کے دس سالوں میں 0.02 فی صد سے بڑھ کر2.08 فی صد تک پہنچ گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب جرمنی میں ہر پچاسویں گاڑی مکمل طور پر بجلی کی طاقت پر چل رہی ہے۔
اس رحجان کا خیر مقدم کیا جا سکتا ہے لیکن اب بھی اس یورپی ملک میں تقریباً 98 فی صد گاڑیاں قدرتی ماحول کے لیے ضرررساں ایندھن یعنی فاسل فیول والے انجنوں پر ہی چلتی ہیں۔ اس لیے ہر نئی تیار ہونے والی الیکٹرک گاڑی کا جشن منایا جائے یا پھر روایتی یا “حقیقی کار” چلانے کی حمایت کی جائے، عام سوچ جو بھی ہو، یہ توقع ضرور رکھنی چاہیے کہ الیکٹرو موبیلٹی جاری رہے گی۔
اب جرمنی کی آٹو موبائل انڈسٹری، جو کہ جرمن معیشت کا ایک اہم ستون ہے، کے حوالے سے ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ مستقبل کے لئے تیار ہے؟
جرمنی دوسروں سے پیچھے
جرمنی اس وقت الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال یا ای موبیلٹی میں سب سے آگے نہیں ہے۔ ڈیوسبرگ-ایسن یونیورسٹی میں آٹوموٹیو اکنامکس کے سابق پروفیسر اور اب ایک آزاد مشیر فرڈینینڈ ڈیوڈن ہوفر کہتے ہیں، ”وزیر اقتصادیات رابرٹ ہابیک نےاسکریپج اسکیم بونس) شہریوں کو پرانی گاڑیاں ترک کر کے نئی خریدنے کے لیے حکومتی مالی اعانت) میں مسلسل کمی لاتے ہوئے جرمنی میں الیکٹرک کاروں کو عام کرنے کے عمل پر بریک لگا دی ہے۔‘‘ہوفر کے مطابق نئے سال میں جرمنی میں الیکٹرک کاروں کا مارکیٹ شیئر کم ہو جائے گا اور ان کے خیال میں یہ کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔
اس سابق پروفیسر کا کہنا ہے کہ چین کی آٹو انڈسٹری اگلے سال دو سے تین گناہ زیادہ ترقی کرے گی۔
جرمنی میں اٹھارہ دسمبر سے الیکٹرک گاڑی کی خریداری کے لیے سبسڈی کے حصول کی درخواست دینا ممکن نہیں رہا۔ جرمن حکومت کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں پر طے شدہ سبسڈی وقت سے پہلے بند کرنے کی وجہ جرمن آئینی عدالت کا وہ حالیہ فیصلہ ہے، جس نے حکمران اتحادی جماعتوں کو حکومتی اخراجات میں کفایت شعار ی پر مجبور کر دیا ہے۔
سینٹر آف آٹوموٹیو مینجمنٹ کے سربراہ شٹیفان بریٹزل بھی حکومت کے اس اقدام پر مایوس ہیں۔ ان کے مطابق ”جرمنی، یورپ اور چین کے درمیان الیکٹرو موبیلیٹی کی دوڑ پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔‘‘ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا،”جرمن حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔‘‘
حکومت کے جائزے کے مطابق جرمنی میں 2030 تک تقریباً 15 ملین الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پر آ جائیں گی۔
‘ناامیدی کا احساس‘
بریٹزل کا ماننا ہے کہ جرمن کار کمپنیاں ٹیسلا اور چینی کمپنیوں جیسے بڑے کھلاڑیوں کے مقابلے میں الیکٹرک کاروں کی تیاری تاخیر سے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اس بارے میں ضروری توجہ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جرمنی کو بیٹری سازی کی ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ دینے کی بھی سخت ضرورت ہے۔
ڈیوڈن ہوفر نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ چین کو جرمنی پر واضح برتری حاصل ہے کیونکہ ان کے بقول جرمنی میں سرکاری سطح پر الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں سرمایہ کاری میں کمی لائی جا رہی ہے جبکہ چینی حکومت اس میں اضافہ کر رہی ہے۔ ان کے مطابق، ”حالات 2025 ء کے بعد اس وقت مزید سخت ہو جائیں گے، جب چینی الیکٹرک کاروں کا عالمی مارکیٹ پر غلبہ ہو گا۔”
جرمنی کا چینی الیکٹرک گاڑیوں پرانحصار
ڈیوڈن ہوفر کے مطابق رواں سال تیس نومبر کو مرسیڈیزبینز اور بی ایم ڈبلیو نے چین میں فاسٹ چارجنگ اسٹیشنوں کا ایک مشترکہ نیٹ ورک قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، جو کہ ہوفر کے بقول ایک مثبت پیش رفت ہے۔
چین کے پاس الیکٹرک کاروں کے مارکیٹ شیئرکا تقریباً 40 فیصد حصہ ہے اور ڈیوڈن ہوفر سمجھتے ہیں کہ جرمنی کا الیکٹرک کاروں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کی ترقی اور پیداوار میں چین پر بے حد انحصار خطرناک ہے مگر اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
جرمنی: پیداوار میں کمی
جرمن کار سازپہلے ہی گاڑیوں کی مانگ میں سست روی کا شکار ہیں۔ رہیڈرلانڈ نامی جرمن اخبار نے اپنی ایک خبر میں انکشاف کیا ہے کہ فوکس ویگن کے پلانٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار موسم گرما کے شروع سے ہی سست روی کا شکار تھی جبکہ کرسمس کے دوران پانچ ہفتوں کے لیے یہ پیداوار مکمل طور پر روک دی گئی۔ گاڑیوں کے بیشتر پرزے تیارکرنے والی مشہور جرمن کمپنی بوش نے اس صورت حال کے پیش نظر دس دسمبر کو اعلان کیا کہ جلد ہی 1500 ملازمتیں ختم کر دی جائیں گی۔