قائد اعظم نے سنجیدگی سے اس بات کا نوٹس لیا۔
خود احتسابی/شوکت علی
۱۹۴۴ء کے اوائل میں دکن ٹائمز ، مدراس سے وابستہ اے۔اے رؤف نے قائد اعظم کی سوانح حیات “ میٹ مسٹر جناح “ لکھی۔ مدراس کے اخبار “ہندؤ” نے اس کتاب پر ریویو لکھا جس میں کہا گیا کہ قائد اعظم کو انکی شادی کے وقت تیس لاکھ روپے کا جہیز ملا تھا۔ اس پر قائد اعظم نے ۱۹ اگست ۱۹۴۴ کو اس اخبار کو خط لکھا جس میں اس خبر کی تردید کرتے قائد اعظم نے بتایا کہ “ انکی توجہ انکی سوانح حیات پر لکھے گئے ریویو کی طرف دلائی گئی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ۱۹۱۸ء میں میری شادی کے وقت مجھے تیس لاکھ روپے کا جہیز ملا تھا جبکہ یہ بات بلکل جھوٹ ہے چنانچہ میں امید کرتا ہوں کہ اخبار اس بات کی تردید نمایاں طور پر شائع کرے گی جبکہ میں مصنف کو پہلے ہی حقیقت سے آگاہ کر چکا ہوں۔”
آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ۱۹۴۴ء میں دوسری جنگِ عظیم فیصلہ کن نتائج کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ ہندوستان میں سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے تھے اور اس دوران ہندو اخبارات قائد اعظم کے متعلق کس قسم کی خبریں شائع کر رہے تھے۔ اے۔اے رؤف نے قائد اعظم کی یہ سوانح حیات ۱۹۴۴ء میں لکھی جس میں قائد اعظم کی سیاسی زندگی کے بہت سارے واقعات بلکل درست بیان کیے گئے تھے لیکن اسکے ساتھ ہی قائد اعظم کے متعلق بہت سی کہی سنی باتوں کو بغیر تحقیق کیے کتاب کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ قائد اعظم نے اس پر ۹ جون ۱۹۴۴ء کو کتاب کے مصنف کے نام خط لکھا اور کتاب میں موجود بہت سی غلطیوں کی طرف مصنف کی توجہ دلائی۔ اس کے جواب میں مصنف نے ۷ جولائی ۱۹۴۴ء کو قائد اعظم کو انکے خط کا جواب دیا اور اپنی پوزیشن کے متعلق وضاحت پیش کی۔ قائد اعظم مصنف کے اس خط کا جواب نہ دے سکے تو اے۔ اے رؤف نے ۲ ستمبر ۱۹۴۴ء کو انھیں دوبارہ مدراس سے خط لکھا جس میں اس نے اس غلط بات کے شائع ہونے پر انتہائی پشمانی کا اظہار کیا۔ قائد اعظم نے اس خط کا جواب ۵ ستمبر ۱۹۴۴ء کو دیا جس میں قائد اعظم نے مصنف کو اپنی معذوری کا اظہار کیا کہ انھوں نے سوچا کہ مصنف کو اس بات کا احساس ہوگا کہ میرے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ میں اس کتاب کو پورا پڑھوں اور اس پر اپنی راۓ کا اظہار کروں تاہم یہ ایک مصنف کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے متعلق ایسی بات کی تشہیر مت کرے جسکی اس نے پہلے سے تحقیق نہیں کی۔ یہ مصنف کا کام ہے کہ وہ حقائق درست پیش کرے اور اپنی کتاب سے ایسی باتوں کو حذف کر دے جو افواہوں اور افسانوں پر مبنی ہوں۔ میں نے اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ میرا احترام کرتے ہیں اور یہ کہ آپ کے ارادے نیک ہی ہونگے اس لیے میں آپ سے گزارش کروں گا کہ آپ میری ذاتی زندگی کے متعلق کسی بھی ایسی بات کو جس کے متعلق آپ کو پورا یقین نہیں ہے اسے اپنی کتاب سے حذف کر دیں کیونکہ میرے لیے ممکن نہیں کہ میں اس کتاب پر نظرِ ثانی کروں اور یہ کہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو میں خود ہی اپنی سوانح عمری لکھ چکا ہوتا لیکن میرے پاس ایسا کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس وقت قائد اعظم پاکستان کے حصول کی جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے تھے اور ان کے پاس کہاں وقت ہوسکتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے حالات لکھنے بیٹھ جاتے لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی کے متعلق ایک کتاب اور پھر ایک اخبار میں شائع ہونے والے اس جھوٹ کو برداشت نہیں کر سکے اور فورا اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ قائد اعظم نے خط کے آخر میں مصنف کو لکھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ جس جذبے کے تخت مصنف نے انکی سوانح عمری لکھی ہے ( یعنی مصنف یقینا قائد اعظم کی زندگی کی درست معلومات لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہوگا) بلکل اسی جذبے کے تخت قائد اعظم مصنف کو خط لکھ رہے ہیں۔
قائد اعظم اور مصنف کے درمیان اس خط و کتابت کے نتیجہ میں کتاب کے دوسرے ایڈیش میں سے متعلقہ حصے کو حذف کر دیا گیا۔ آپ سوچیں قائد اعظم نے اپنے خلاف چھپنے والی اس بات کا ازخود نوٹس لیا اور مصنف نے اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن سے اس جھوٹی خبر کو حذف کر دیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد نجانے کون کونسی باتیں انکے ساتھ منسوب کی گئیں لیکن اب قائد اعظم انکی تردید کرنے کے لیے ہم میں موجود نہیں اس لیے اگر کبھی آپ تک قائد اعظم کے متعلق کوئی خبر پہنچا کرے تو اسے بغیر تحقیق کے آگے مت بڑھا دیا کریں اسکی تھوڑی جانچ پڑتال ضرور کر لیا کریں مبادا کسی فاسق کی خبر آپ کو گمراہ کر دے۔
آج قائد اعظم کا یومِ وفات ہے آئیں سب مل کر اس مردِ حُر کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کریں جو ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کر گیا۔