خود احتسابی/شوکت علی
قائد اعظم کی توہین مت کریں۔
ہم نے شاید قائد اعظم کا نام ہی سن رکھا ہے جبکہ انکی شخصیت اور اندازِ سیاست سے ہماری کم علمی کا یہ عالم ہے کہ بہت سے خوشامدی اور سخن کے کاسہ لیس انکا موازنہ آج کے سیاستدانوں سے کر رہے ہوتے ہیں۔ آج پاکستان کی اکثر بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں پر خاندان قابض ہیں۔ یہ جمہوری سیاسی پارٹیاں کم اور خاندانی وراثت زیادہ لگتی ہیں جو باپ کے بعد بیٹے کو منتقل ہوجاتی ہیں۔ قائد اعظم جو بانیِ پاکستان تھے اور مسلم لیگ کی اکثریت انھیں تاحیات پارٹی صدر بنانے تک آمادہ تھی لیکن قائد اعظم کے سیکرٹری اور آل انڈیا مسلم لیگ سٹوڈنٹ فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ۳۸-۱۹۳۷ جبکہ ۱۹۳۸ سے ۱۹۴۴ء تک وائس پریذیڈنٹ رہنے والے محمد نعمان بتاتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک رکن نے تجویز پیش کی کہ ہر سال انتخابات کروانے کی بجاۓ قائد اعظم کو تاحیات مسلم لیگ کا صدر بنا دیا جاۓ۔ قائد اعظم نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ سالانہ انتخابات انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ مجھے آپکے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہر سال آپکے حضور پیش ہونا چاہیے۔ آپ یہ مت بھولیں یہ بات اسوقت ہو رہی تھی جب قائد اعظم پاکستان کے حصول کی جنگ لڑ رہے تھے لیکن وہ اسوقت بھی اس جمہوری اصول کو نہیں بھولے کہ پارٹی کے صدر کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے انھیں اپنی سالانہ کارکردگی کی بنیاد پر پارٹی ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینا تھا۔ کیا آج پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی کا صدر قائد اعظم کی اس سوچ پر عمل کرتا ہے اگر نہیں تو اسکا موازنہ قائد اعظم سے کر کے قائد اعظم کی توہین مت کریں۔
ہمارے آج کے سیاسی قائدین جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو سرکاری وسائل کا یوں بے دریغ استعمال کرتے ہیں جیسے یہ قومی خزانہ نہیں بلکہ انکی خاندانی جائیداد ہو۔ ضیاالدین احمد سلیری جنھیں زیڈ اے سلیری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ ایک صحافی اور تحریک پاکستان کے متحرک کارکن تھے۔ آپ بتاتے ہیں کہ قائد اعظم لندن سے ہندوستان واپس آ رہے تھے تو سلیری انھیں خدا حافظ کہنے کے لیے ائر پورٹ پر موجود تھے۔ وہاں پر قائد اعظم کا شیدائی ایک بوڑھا آدمی پہنچا جو ایسٹ لندن میں رہتا تھا اور اسنے صرف قائد اعظم سے ملنے کی خاطر اس زمانے میں آٹھ پاؤنڈ ٹیکسی کا کرایہ خرچ کر کے ائر پورٹ پر پہنچا تھا۔ سلیری نے جب اسے قائد اعظم سے ملواتے ہوۓ یہ بات بتائی تو سلیری کہتے ہیں قائد اعظم نے اس بوڑھے شخص کی طرف دیکھ کر صرف اتنا کہا
“You Muslims! You are so extravagant.”
“ تم مسلمان انتہائی اسراف کرنے والے ہو۔”
قائد اعظم کی جگہ اگر آج کا کوئی سیاسی لیڈر ہوتا تو وہ اس بوڑھے آدمی کا کندھا تھپتھپاتا کہ وہ ایک پکا سچا پارٹی ورکر ہے اور اپنی قیادت سے عشق کرتا ہے لیکن یہ قائد اعظم تھے باباۓ قوم تھے جنکو اپنی قوم سے محبت اور انکا درد تھا چنانچہ آپ نے اس بوڑھے آدمی کو فضول خرچی سے اجتناب کی تلقین کی کیونکہ قائد اعظم خود پیسے کو انتہائی احتیاط سے خرچ کرتے تھے جیسے محمد نعمان ہی بتاتے ہیں کہ جب قائد اعظم انتہائی آسودہ حال ہوچکے تھے تو بھی جب وہ کام سے گھر واپس آتے تو وہ وہ ایک نوٹ بک لیتے اور اس میں ان تمام فیسوں کا اندراج کرتے جو انھوں نے اپنے موکلوں سے وصول کی ہوتیں اور پھر وہ فاطمہ جناح کو بلاتے اور ان سے تمام دن کے اخراجات کا حساب لیتے مثلاً آج کچن کے لیے مچھلی، مرغی اور کیا کچھ خریدا گیا پھر وہ اس دن کے حساب کو کل رقم سے منفی کرتے اور مِس جناح کو بتاتے کہ باقی ہفتے کے خرچ کے لیے ان کے پاس اتنی رقم بچی ہے۔ اور پھر وہ ڈرائیور سے کہتے کہ وہ انھیں بتاۓ کہ آج گاڑی کتنے کلومیٹر چلی ہے اور ان تمام باتوں کو نوٹ بک میں درج کیا جاتا تھا۔ نعمان بتاتے ہیں کہ ایک دن انھوں نے جناح سے پوچھا کہ “آپ کو ان تمام باتوں کے لیے وقت کیسے مل جاتا ہے؟ تو قائد اعظم نے اپنی مٹھیوں کو بھینچتے ہوۓ کہا “ یہ انتہائی محنت سے کماے ہوۓ پیسے ہیں، یہ انتہائی محنت سے کماۓ ہوۓ پیسے ہیں۔” آپ خود سوچیں قائد اعظم جو خود اپنی ذاتی زندگی میں پیسے خرچ کرنے میں اتنے محتاط اور کفایت شعار تھے وہ کس طرح اپنی قوم کو فضول خرچی پر شاباشی دے سکتے تھے۔ قائد اعظم گورنر جنرل ہاؤس میں رہتے ہوۓ خود کمروں کی غیر ضروری لائٹس آف کر دیا کرتے تھے۔ امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی مرزا ابو حسن اصفہانی بتاتے ہیں کہ قائد اعظم فرمایا کرتے تھے “اسراف گناہ ہے اور اگر وہ روپیہ قوم کا ہے تو اس میں اسراف گناہ عظیم ہے۔”ہماری آنکھوں کے سامنے سے کبھی کبھار کسی خبر میں صدر، وزیر اعظم اور گورنر ہاوسز کے اخراجات کی تفصیل گزرتی ہے تو انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ کسی غریب و مقروض ملک کے حکام کیسے شاہانہ انداز اختیار کیے ہوۓ ہیں۔ تو کیا ہمارے آج کے حکمران قائد اعظم کے سے انداز اختیار کرنے کا دعوی کر سکتے ہیں ۔ ہرگز نہیں تو پھر انکا موازنہ قائد اعظم سے کر کے قائد اعظم کی توہین مت کریں۔
ہماری قومی سیاست میں جو برائی کینسر کی طرح پھیل چکی ہے وہ جمہوری سیاسی پارٹیوں کی بجاۓ ایسی پارٹیوں کا وجود ہے جن پر خاندان چھاۓ ہوۓ ہیں۔ قائد اعظم کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی بھی غلط بات کو ایک جملے سے اڑا دیا کرتے تھے۔ سیاسی جماعت پر قریبی رشتے داروں کی تعیناتی جیسی برائی کو قائد اعظم نے کس طرح ایک جملے میں اڑا دیا اسکی مثال پڑھیں اور عش عش کر اٹھیں۔ قائد اعظم کے ایک قریبی ساتھی اور بعد ازاں پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے آئی آئی چندریگر بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے قائد اعظم کے لائق بھانجے اکبر پیر بھائی کو مقامی مسلم لیگ کی کسی ذیلی کمیٹی کا چئیرمین بنانے کی تجویز قائد اعظم کو پیش کی تو انھوں نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اکبر کی سب سے بڑی “نااہلیت” یہ ہے کہ وہ میرا رشتہ دار ہے۔ آج پاکستان کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے آپکو دو پر خاندان براجمان نظر آئیں گے جن میں پارٹی صدارت کا معیار شاہ ابن شاہ ہے تو کیا ان سیاستدانوں کا موازنہ نہ قائد اعظم سے کیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں چنانچہ ایسا کر کے قائد اعظم کی توہین مت کریں۔