۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کے ایک علیحدہ قوم ہونے کی بنیاد پر انکے لیے آزاد و خود مختار ریاست کے حصول کو اپنا مقصد قرار ٹھہرایا تو گویا متحدہ ہندوستان کی سیاست میں ایک بھونچال آگیا اگرچہ یہ طوفان اس وقت بھی اٹھا تھا جب علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبہ الہٰ آباد میں مسلمانانِ ہند کو ایک اقلیت کی بجاۓ ایک قوم قرار دیا اور ہندوستان کے مسلے کو ایک فرقہ وارانہ مسلہ کی بجاۓ بین الاقوامی قرار دیا۔ اس وقت لندن میں پہلی گول میز کانفرنس جاری تھی جس میں مسلمانوں پر ہندوستان میں ہونے والے آئندہ انتخابات میں مخلوط انتخابات پر راضی ہونے کے لیے دباو ڈالا جا رہا تھا جبکہ علامہ اقبال جداگانہ انتخابات کے حق میں تھے ، وہ اسے مسلمانوں کے تشخص کے لیے بنیادی اصول کا درجہ دیتے تھے۔ اس اصول پر فیصلہ کن مہر انکے خطبہ الہٰ آباد نے لگا دی جس میں آپ نے فرمایا کہ
“اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام جو ایک اخلاقی نصب العین اور ایک خاص قسم کی سیاست مدن کا مجموعہ ہے۔۔۔۔۔مسلمانانِ ہند کی کی تاریخ حیات میں سب سے بڑا جزو ترکیبی رہا ہے اسنے وہ اساسی جذبات اور باہمی کشش کے سامان مہیا کیے ہیں جو منتشر افراد اور مختلف گروہوں کو بتدریج متحد کر کے با لآخر انھیں ایک مُتمیز اور معین قوم کی صورت میں منظم کر دیتا ہے جو اپنا مخصوص اخلاقی شعور رکھتی ہے۔”
مسلمانوں کے ایک علیحدہ قوم ہونے کے اعلان نے کانگریسی اور برطانوی حلقوں میں غصے اور بے چینی کی لہر دوڑا دی۔ ہندو جو ایک طویل عرصے سے ہندوستان میں بسنے والے تمام افراد کو ایک قوم قرار دیتے چلے آ رہے تھے، مسلمانوں کے ایک علیحدہ قوم ہونے کے دعوی سے انکی سالوں کی محنت رائیگاں ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔ وہ دور جب جغرافیائی حدود کی بنا پر قومیت اور قوم پرستی کا تصور اقوامِ عالم میں ایک خوبی تصور کیا جا رہا تھا اسوقت ایچ جی ویلز کی زبان میں ہندوؤں کے لیے یہ احساس کہ ہندوستان ایک ملک اور یہاں بسنے والے لوگ ایک قوم نہیں ہیں ایسے ہی تھا جیسے کسی کو بھرے مجمع میں برہنہ کر دیا گیا ہو۔ ہندو اس حقیقت سے بھی آگاہ تھا کہ ایک قوم کے وجود کا اقرار کا اگلا مرحلہ لا محالہ طور پر ایک علیحدہ خود مختار ریاست کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انیسویں صدی کے اختتام تک اقوامِ عالم میں یہ نظریہ قبولیت کی سند حاصل کر چکا تھا کہ وہ لوگ جو باہم ملکر ایک قوم بناتے ہیں وہ اپنے قوم ہونے کے دعوی کی بنیاد پر اپنی آزاد و خودمختار حکومت کا مطالبہ کر سکتے ہیں اسکے لیے انھیں بس اپنے آپ کو ایک قوم ثابت کرنا ہوگا۔
ہندو مسلمانوں کے علیحدہ قوم ہونے کے مطالبے کو مختلف وجوھات کی بنا پر رد کرتے تھے جن کی بنیاد معاشرتی، لسانی اور مذہبی رویوں پر تھی۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے اپنی کتاب “پاکستان_آردیپارٹیشنآف_انڈیا” میں ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کے علیحدہ قوم ہونے کی مخالفت میں ہندوستان کی معاشرتی زندگی میں دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان پائی جانے والی معاشرتی، لسانی اور مذہبی ہم آہنگی کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر ایمبیڈکر ہندوؤں کے حوالے سے لکھتے ہیں
“ جو ہندو مسلمانوں کے علیحدہ قوم ہونے کے خیال سے اتفاق نہیں
کرتے انکی اس بات کانحصار ہندوستان کی معاشرتی زندگی کے ان پہلوؤں پر ہے جو ہندو معاشرے اور مسلم معاشرے کے ایکدوسرے میں ضم کیے ہوۓ ہیں۔” (صفحہ ۱۳)
اگر ہم ہندوستان کی معاشرتی زندگی کی بات کریں تو دو قومی نظریہ کے مخالفیں ہندوؤں اور مسلمانوں میں نسل کے فرق کو تسلیم نہیں کرتے، وہ پنجاب ،یو پی، بہار، مدراس، بنگال اور بمبئ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو نسلاً ایک ہی قرار دیتے تھے۔ اسی طرح لسانی بنیادوں پر دیکھیں تو ہندو کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی اپنی کوئی مشترکہ زبان نہیں ہے مثلاً پنجاب میں رہنے والا ہندو اور مسلمان پنجابی بولتے ہیں، سندھ میں دونوں سندھی بولتے ہیں، بنگال میں بنگالی، گجرات میں گجراتی جبکہ مہاراشٹر میں دونوں مراٹھی بولتے ہیں۔ مسلمان صرف شہروں میں اردو بولتے ہیں جبکہ ہندو صوبے کی زبان بولتا ہے چناچہ ہندو مسلمانوں اور اپنے درمیان لسانی اتحاد کا قائل تھا۔معاشرتی زندگی میں بھی وہ دونوں کے درمیان ذات برادری اور رسوم و رواج کے ایک ہونے کی بات کرتا تھا۔ اس کے بقول اگرچہ اعوانوں کی اکثریت مسلمان تھی لیکن انکے نام و نسب ہندو برہمنوں جیسے ہی تھے۔ اسی طرح چوہدری بھی ہندوؤں میں خاندانی نام ہے جو کہ اتر پردیش اور جنوبی ہند کے مسلمانوں میں بھی عام ہے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں بھی بعض مسلمان صرف نام کے ہی مسلمان تھے جب کہ ان کی تمام رسمیں ہندوؤں جیسی تھیں یا تو وہ بلکل ہندو رسموں کے مطابق شادی کرتے یا پھر پہلے ہندو رسموں کے مطابق شادی کر لیتے اور بعد میں قاضی کو بلا کر اسلامی طریقہ سے نکاح کر لیتے تھے حتی کہ پنجاب اور صوبہ سرحد میں شریعہ کے قانون کے پاس ہونے سے پہلے تک مسلمانوں کے کچھ طبقوں میں تو شادی، سرپرستی اور وراثت کے معاملات میں ہندو قوانین پر ہی عمل کیا جاتا تھا۔ مذہبی معاملات میں مسلمان بزرگانِ دین کے مرید ہندو ہوا کرتے تھے اور ہندو جوگیوں کے چیلے مسلمان ہوا کرتے تھے اور ان دونوں مذاہب کی مذہبی ہستیوں میں بڑی قربت ہوا کرتی تھی۔ مثال کے طور پر انیسویں صدی کے اوائل میں گروٹ ضلع خوشاب، پنجاب میں مسلمان بزرگ جمالی سلطان اور ہندو جوگی دیال بھون کا ذکر ملتا ہے جن کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات انتہائی قریبی تھے جبکہ مسلمان اور ہندو ان دونوں کو یکساں محترم سمجھتے تھے۔ اسی طرح رانی تال کنگرا ڈسٹرکٹ، پنجاب میں سترھویں صدی میں ایک مسلمان بزرگ بابا فتحو کا گزر ہوا ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھیں ولایت ایک ہندو جوگی سودھی گُرو گلاب سنگھ سے عطا ہوئی تھی ۔ جھنگ میں گزرے بابا شاہانہ جو کہ ایک ہندو جوگی تھے ، ایک مسلمان بزرگ نے ان کے ہندو نام مہرا کو بدل کر میر شاہ رکھ دیا تھا۔ (صفحہ ۱۵-۱۴)
ڈاکٹر امبیڈکر ہندوؤں کی طرف سے پیش کی جانے والے ان تمام باتوں کو درست مانتے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں پائی جانے والی یہ یکسانیت جس کی وجہ سے وہ ہمیں ایکدوسرے میں مدغم دکھائی دیتے ہیں کسی شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ اسکی وجہ خالصتًا میکانکی ہے۔ یہ نامکمل تبدیلی مذہب کی وجہ سے ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہندو مذہب سے اسلام میں داخل ہوئی تھی اور انکا تبدیلیِ مذہب کا عمل مکمل اور موثر نہیں ہوسکا جسکی وجہ معاشرتی خوف ہو سکتا ہے یا پھر مذہبی پرچار کرنے والوں کی تعداد کا ناکافی ہونا بھی اسکی ایک وجہ قرار دی جا سکتی ہے چناچہ اس بات میں کوئی حیرانگی نہیں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہندو رسم و رواج کے مطابق زندگی گزار رہی تھی۔ وہ دونوں صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی ماحول میں اکٹھے رہ رہے تھے اور ایسی صورت میں ایکدوسرے کی رسم و رواج کو اختیار کر لینا کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں تھی۔ ایک یکساں ماحول یکساں قسم کے ردعمل کو ظاہر کرتا ہے اور تسلسل کے ساتھ ایک جیسے ماحول میں ایک طرح سے عمل کرتے رہنے سے افراد بھی ایک ہی قسم کے نظر آنے لگتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے بعد ڈاکٹر امبیڈکر ایک بہت اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ان تمام باتوں نے ملکر مسلمان اور ہندوؤں میں کوئی ایسا جذبہ یا احساس(feeling) پیدا کی ہے جو انھیں ایک قوم ہونے کے رشتے میں ڈھال دیتا؟ ڈاکٹر امبیڈکر کے اٹھاۓ گے اس سوال کا جواب یقینًا ‘نہیں’ میں ہے۔ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی تجربہ یا مشاہدہ ہے کہ نہ تو نسل اور نہ ہی زبان اور ملک کا رشتہ لوگوں کو ایک قوم میں ڈھال سکتا ہے۔ رینان نے اس قومیت کے مسلہ پر اس خوبصورت سے بحث کی ہے کہ اس پر مزید کچھ کہنے کے گنجائش نہیں رہتی۔ رینان کہتا ہے کہ “نسل کو قومیت کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی نسل اپنی خالص شکل میں موجود نہیں ہے جبکہ ایسی سیاست جس کا انحصار انسانی نسلوں کے تجزیے پر ہو باطل کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔نسلی حقائق اپنے آغاز میں تو اہمیت رکھتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنی اہمیت کھونے لگے۔ انسانی تاریخ علمِ حیوانات سے بہت مختلف ہے۔ نسل ہی سب کچھ نہیں ہے جیسا کہ چوہوں اور بلی کی نسل میں ہوتا ہے۔” اسی طرح رینان نے زبان پر بحث کرتے ہوۓ بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ “ زبان ہم مشربی کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن یہ اس پر زور نہیں دیتی۔ امریکہ اور انگلینڈ، ہسپانوی امریکہ اور ہسپانیہ ایک ہی زبان بولتے ہیں لیکن وہ ایک قوم نہیں ہیں۔ اس کے برعکس سوئٹزرلینڈ جو کہ مختلف علاقوں سے باہم ملکر وجود میں آیا ہے اور جہاں تین یا چار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انسان میں کچھ ایسا ہے جو زبان سے بھی اعلی ہے اور یہ ہے اسکا ارادہ۔ یہ سوئٹزرلینڈ کے رہنے والوں کا ارادہ ہے جس نے انھیں لسانی تنوع کے باوجود باہم متحد رکھا ہوا ہے اور یہ زبان کی یکسانیت کے مقابلے میں بہت ہی اہم حقیقت ہے اور جو بڑی تکلیفوں کے بعد حاصل ہوتی ہے۔” اسکے بعد رینان ایک ہی ملک میں رہنے کے حوالے سے بات کرتے ہوۓ کہتا ہے کہ “ ملک بھی نسل کی طرح اتنا اہم نہیں کہ ایک قوم کی تشکیل کر سکے۔ ملک آپ کو خطہ فراہم کرتا ہے جہاں آپ اپنی مرضی کے مطابق عمل اور جدوجہد کرتے ہیں لیکن اسکی روح انسان ہوتا ہے۔ کسی قوم کی تشکیل میں انسان ہی سب کچھ اور مقدس ہستی ہے اور کوئی بھی چیز جو اپنی فطرت میں صرف مادی ہے اس کے مقابل کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔” (صفحہ ۱۷-۱۶)
اس بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کسی قوم کی تشکیل میں نسل، زبان اور ملک کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی جو اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے ارادے کو حاصل ہے۔ رینان کا حوالہ دیتے ہوۓ ہی علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہٰ آباد میں کہا تھا کہ”انسان نہ تو اسکی نسل اور مذہب کا غلام بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دریاؤں پہاڑوں کی حد بندیاں اسے مقید کر سکتی ہیں بلکہ صحیح الدّماغ اور گرم جوش دل رکھنے والے انسانوں کی عظیم الشان اجتماعیت ایک اخلاقی شعور پیدا کر دیتی ہے جسے “قوم” کہتے ہیں۔” ہندوستان کے مسلمانوں میں یہ اخلاقی شعور اسلام نے پیدا کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ ایک ہی معاشرے میں پہلو بہ پہلو چلتے رہے اور انھوں نے ایکدوسرے کی رسومات کو تو اپنایا لیکن وہ ہندو معاشرے میں اس طرح جذب نہیں ہوۓ کہ انکی شناخت ہی ختم ہو جاتی جو کہ ایک تاریخی حقیقت تھی۔ مشہور ہندو بنگالی مورخ نراد سی چوہدری نے بھی مسلمانوں کے ایک علیحدہ قوم ہونے کے دعوی کو مسلم لیگ یا قائد اعظم کی دریافت کردہ اختراع کی بجاۓ ایک تاریخی حقیقت قرار دیا تھا جو اٹل ہے۔ ڈپلومیٹ اور تاریخ دان کے ایم پانیکر بھی اسلام کی ہندوستان میں آمد کے باعث ہندوستانی معاشرے کی ایک واضح عمودی تقسیم کے حامی ہیں۔ مشہور کانگریسی سیاستدان لالہ لاجپت راۓ اسلامی فقہ کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندو مسلم متحدہ قومیت ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا لہذا اسے قصہ پارینہ سمجھتے ہوۓ ترک کر دینے میں ہی ہندو اور مسلمان دونوں کی بھلائی ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک علیحدہ قوم ہونے کی حقیقت پر پختہ یقین کرتے ہوۓ انکے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مصمم ارادہ کر چکی تھی اور پھر ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو انھوں نے اسکو اپنا سیاسی نصب العین قرار دے دیا اور سات سال کے عرصے میں اسے حاصل بھی کر لیا۔ اس عظیم کامیابی کے پیچھے مسلمانانِ ہند کا وہ اخلاقی شعور تھا جو اسلام نے انھیں عطا کیا تھا، وہ ارادہ تھا جو انسانوں کو ایک قوم میں ڈھال دیتا ہے، پاکستان مسلمانانِ ہند کے اسلامی اخلاقی شعور اور مضبوط ارادوں کی کہانی اور ہمارے لیے ایک نعمت ہے۔ آج یومِ پاکستان ہمیں ایک بار پھر اس نعمت کا شکر ادا کرنے اور ان ارادوں سے تجدید وفا کی صدا دیتا ہے جو اس ملک کے قیام کا باعث بنے اور ہمیں انھیں ارادوں کے ساتھ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستان زندہ باد۔