انتہاپسند قوتوں کو ملک کے مستقبل سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی! گل بخشالوی

کھاریاں شہر سیاسی اور مذہبی حوالے سے امن کا گہوارا ہے خدا را اس امن کو قوم دشمن قوتوں کی خواہشات پر قربان نہ کریںکھاریاں اوراسلامی جمہوریہ پاکستان پر رحم کریں۔ کھاریاں کے علماء مذہبی امن کے لئے میدان عمل میں آئیں جانتے ہیں کی کھاریاںمیں تحریک ِ لبیک کی کوئی فعال تنظیم نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک ِ لبیک سے ہمدردیاں رکھنے والے سہولت کا موجودہیں۔ چند سال قبل علامہ قاضی امیر حسین کی وفات کے بعد راقم گل بخشالوی نے کھاریاں شہر میں مذہبی امن کے لئے شہر کےعلماءکرام پر مشتملسنی علماءکونسل کھاریاںتشکیل دے کر شہر میں بیرونی مداخلت بند کر دی تھی لیکن بدقسمتی سے اس کونسلکو ایک خاص مکتبہ فکر کے علماءنے ہائی جیک کر لیا اور شہر میں مذہبی امن کے لئے تنظیم اصولی مقاصد سے غافل ہو گئی

کاش آج علامہ قاضی امیر حسین حیات ہوتے تو جی ٹی روڈ پر یہ تماشہ نہ ہوتا جو ٹریفک جام کی صورت میں دیکھا گیا۔ جی ٹی روڈ پرہنگامے کے دوران میں جی ٹی روڈ پر تھا مجھے اس ہنگامے میں شہر کا کوئی مولوی نظر آیا اور نہ کوئی عام شہری گرد ونواح کے دیہاتسے آئے ہو ئے تحریک ِ لبیک کے علمبرداروں کے ہاتھوں کھاریاں شہر کے شہری اپنے شہر میں بد ترین ہنگامہ آرائی پر انگشتبدندان تھے اس لئے کہ شہر میں ناموس ِ رسالت کے علمبردار شہری جانتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں پاکستان کی واحد مذہبیجماعت تحریک ِ لبیک کیوں سرا پا احتجاج ہے قومی مذہبی امن کی بربادی کے لئے کس کے ایجنڈے کو تقویت دی جارہی ہے ۔اگرمذہبی انتہا پسندجماعت تحریک لبیک کے اصرار پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دیاجائے تو خارجہ پالیسی ماہرین کے مطابق پاکستانکو سنگین سفارتی نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی صورت میں پاکستان کو دوسرے ممالک کے ساتھلین دین میں شدید دباو ¿ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔فرانس یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہے اور یورپ پاکستان کی مصنوعات کیاہم منڈی تو اس فیصلے کے پاکستان کے لیے معاشی نتائج بھی ہو سکتے ہیں جبکہ فرانس پاکستان میں متعدد ترقیاتی منصوبے بھی چلا رہاہے جو اس فیصلے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔فرانس میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس وقت فرانس میں پاکستان کا کوئی سفیر موجود نہیں ہے اگر سفیر ہوتا توتحریک لبیک کے مطالبے پر اپنے سفیر کو فرانس سے واپسبلا کر فرانس کے سفیر کو واپس بھیجا جا سکتا تھا ۔سفارت کاری کے معاملات میں کسی جماعت کے مطالبے پر اسے خوش کرنے کےلیے نہیں بلکہ وہ فیصلے کیئے جاتے ہیں جو ملک اور قوم کے مفاد میں ہوں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی مذہبی جماعت کے دبا میں آکر کسیملک کے سفیر کو ملک بدر کر دیں اور پھر اقوام عالم سے کہیں کہ ہم مجبور تھے۔ اور اگر ایسا کرنا حکومت کی مجبوری ہو بھی جائے تواس مجبوری کو پارلیمان میں لے جایا جاتا ہے، پارلیمان میں اتفاق رائے سے جو فیصلہ ہو اس کے مطابق اس پر عمل کیا جاتا ہےلیکن یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت بزور ِ بازو فیصلہ منوانے والی انتہا پسند جماعت کے رہنماو ¿ں کے خلاف نفرت اور تشدد پراکسانے جیسے قوانین کے تحت کارروائی کرے تاکہ آئندہ کوئی ایسا گروہ قانون ہاتھ میں لے کر معاشرے میں شدت پسندی کےارتکاب کی جرات نہ کر سکے

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابند ی کا مذہبی، نظریاتی اور انسانی بنیادوں پر حکومتی فیصلے کاہر مکتبہ فکر نے خیر مقدم کیا ہےاس لئے کہ پاکستان میں انتہاپسند قوتوں کو ملک کے مستقبل سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں