تحریر گل بخشالوی
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ہونے والے واقعات کو مایوس کن قرار دیا۔ انہوں نے کہا غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے والے ارکان کو ایوان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسد قیصر غلط کر رہے ہیں یہ لوگ پاکستان بھ بھر سے گنے چنے خواتین وحضرات ہیں جو اصل میں شرافت کا لبادہ اوڑے تھے لیکن بھارت اور دنیا کو تو بتانا تھا کہ اگر ہم ا پنی شخصیت پر سے شرافت کا نقاب اتھا ر دیا تو پھر نہ دیس کی پروا کرتے ہیں نہ دیس والوں کی ہم جب اپنا لبادہ ا تارتے ہیں تو پاکستان کی پولیس،رینجرز اور افواج ِ پاکستان کی پہچان کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ، ہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی سوچنے پر مجبور کرتے ہیں !
جہاں تک نام ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تو یہ نام بابائے قوم محمد علی جناح نے اس دیس کی پہچان کو دیا تھا اور ہم اس بابا کو اس کے نظریات کے ساتھ کب کا دفن کر چکے ہیں بڑے آئے عمران خان نیازی کہتے ہیں میں پاکستان کو ریاست ِ مدینہ بنا ﺅں گا اب اسے بھی یقین آیا ہو گا کہ اپوزیشن تو اپوزیشن ہے اس کی اپنی جماعت میں بھی وہ سپولے ہیں جن کو تحریک ِ انصاف کا دودھ پلا رہے تھے وہ بھی سانپ بن کر میدان میں آگئے ہیں اب انہیں سپیکر اور عمران خان تو کیا افواج َ پاکستان بھی ان کواپنی خاندانی پہچان سے باز نہیں رکھ سکتے ہم سوچ رہے تھے ہمارے دیس کے منتخب نمائندے خا ندانی لوگ ہیں شرفت کے علم بردار ہیں لیکن بجٹ اجلا س کے دن اور اس کے دوسرے دن ان سے متعلق ہماری تمام غلط فہمیاں دور ہوگئیں اس لئے کہ قانون ساز اسمبلی میں ہم وطنوں کو سر عام اور کھلے عام گالیاں دینے والے عوامی نمائندے کہلانے کے حقدار نہیں ہو سکتے یہ ہی وہ لوگ ہیں جو ٹی وی ٹاک شوز میں اخلاقی قدروں کو اس بے دردی سے پامال کرتے ہیں کہ دئکھنے والوں کو شرم آجاتی ہے لیکن ان کو نہیں آتی مندو خیل کی بد زبا نی پر ہی فردوس عاشق اعوان نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا لیکن شرم اس کو ہھر بھی نہیں آئی
کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ صبر کی بھی انتہا ہوتی ہے گذشتہ تین سال سے اپوزیشن نے اسمبلیوں کو مچھلی بازار بنائے رکھا ہے حکمران جماعت خاموش تھی لیکن اپوزیشن کے خر بوز وں کو دیکھ دیکھ کر تحریک ِ انصاف کے خربوزے بھی رنگ پکڑتے گئے اور بجٹ اجلا س میں اپوزیشن کی غنڈہ گردی دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور جب وہ اپنی شرافت کے لبادے سے باہر نکلے تو اپوزیشن کے تو ہوش اڑ گئے ، ترس آرہاتھا بلاول زرداری پر جو کھبی نچلے نہیں بھیٹا کرتے تھے ایسے خاموش تھے جیسے اسمبلی میں موجود ہی نہیں شاید اس لئے کہ سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیدا ہوےنے والے بلاول کو یہ یقین ہی نہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے
تحریکِ انصاف سے متعلق جن کو کچھ غلط فہمی تھی وہ فواد چو ہدری نے دور کر دی ،فواد چوہدری نے کہا بس بہت ہو گئی اب جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے تم ہمیں سنو گے تو ہم تمہیں سنیں گے!
اگر سوچا جائے تو بات کسی حد تک درست بھی ہے اپوزیشن تو گذ شتہ تین سا ل اسمبلی میں کھبی ٹک کر بیٹھی نہیں قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن نے حسب سابق اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کی اور وزیرِ خزانہ کی تقر یرنہ سنی اور نہ کسی کو سننے دی انہوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ہم اسمبلی میں وہ تماشہ کریں گے جو پہلے کھبی کسی نے دیکھا نہیں ہو گا اور وقعی انہوں نے بجٹ اجلاس میں جو کیا گذشتہ تین سال میں کی جانے والی ہنگامہ آر ائیوں سے کچھ زیادہ ہی تھا جواب میں وہ ہی کچھ ہوا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تقریر شروع کی تو حکومتی ارکان نے نعرے بازی شروع کر دی ا ور آستین چڑھ گئے جو کاپیاں پڑھنے کے لئے دی گئیں تھی انکو پتھراﺅ کے طور پر ایسا استعمال کیا کہ اپوزیشن کی چیخیں نکل گئیں ۔
مجموعی طور پر قومی اسمبلی میں جو ہوا بہت برا ہو الزام کسی ایک کو نہیں دیا جاسکتا ایوان میں موجود ہر ر کن اسمبلی کے لئے باعث ِ شرم ہے اس لئے کہ۔ایوانکے تقدس کو پامال کیا گیا مرد اور خوا تین ممبرانِ اسمبلی نے وہ بازاری زبان استعمال کی کہ طوائف زادیا ں اور ان کے دلے بھی شرما گئے اور ہم پاکستانی عوام کے منتخب اراکین اسمبلی نے دنیا بھر کے ممالک کو پیغام دیا کہ ہم پاکستا نی کس قبیل کے لوگ ہیں ، ذاتی مفادات کے لئے اپنے ہی جیسوں کی ماں بہن کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں ! اس لئے میں نے اپنی ایک غزل میں شاید غلط نہیں کہا !
رفیق ان کے بھی سب بے ضمیر ہوتے ہیں
جو بد قماش ہوں گاﺅں میں پیر ہوتے ہیں
کسی سے کیا کری…