عبد اللہ اپنی نی نویلی دلہن اور بوڑھے والدین کے ساتھ تقسیم کے موقع پر خوشی خوشی قافلے کے ساتھ پاکستان رہا تھا. قافلے کے تمام افراد اپنے گھر بار آور قیمتی جائداد چھوڑکراپاکستان کی طرف رواں داؤں تھے. رات کا پھلا پلیر تھا. دن بھر کا تھکا یارا قافلہ سو رہا تھا. کہ اچانک چیخ و پکار کی آواز شروع ہو گئ… عبداللہ ہڑبڑا لر اٹھا دیکھا کہ بلواہیوں نے حملہ کر دیا.. عبداللہ اپنی بیوی اور والدین کو لیکر قریب جھاڑیوں میں چھپ گیا.. حملہ آور مکمل طور پر قتل و غارت کے بھر جہاں سے آے تھے وہاں چلے گے. عبداللہ بے بسی کی تصویر بنا اپنے اجڑے ہوے قافلے کو دیکھ رہا تھا. اپنے عزیزوں, پیاروں کے کٹھے پٹھے لاشے دیکھ کر اس کا دل بھر آیا. اس کا دل زندگی سے بیزار ہو چکا تھا. لیکن ایک ایسی لگن تھی جو اس میں جینے کا حوصلہ پیدا کر رہی تھی. چنانچہ وہ ایک نئے ولولے کے ساتھ اٹھا اور اپنے بوڑھے والدین اور بیوی کو ساتھ لیکر نئے ملک کی طرف روانہ ہوا. دن کو وہ آبادی سے ہٹ کر سفر کرتا جہاں کہیں سے کھانے کو ملتا اپنی اور اپنے گھر وانوں کی پیٹ کی آگ بھجاتا.. کئ دنوں کی مسافت کے بعد اس نے ارض پاک پر قدم رکھا. فرط مسرت سے اس نے پاک دھرتی کو بوسہ دیا. مہاجر کیمپ میں مہینہ گزارنے کے بعد اس نے صادق آباد میں مستقل رہائش اختیار کر لی.. یہاں پر اس نے منڈی کی راہ لی اور اللہ کے بھروسے پر کام شروع کیا. رفتہ رفتہ اس کے گھر کے افراد میں اضافہ ہوتا گیا پچاس سال کی عمر کو پہنچتے وہ پا نچ بچوں کا باپ بن چکا تھا. اب منڈی میں اس کی پانچ دکانیں تھیں اس کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا. جون کی تپتی دوپہر کوعبداللہ ماضی کے دھندلکوں میں جھانک رہا تھا کہ اچانک کمر ے میں لگے ٹی وی سے شور شرابے کی آواز اسے حال میں لے آئی. جہاں پر پاکستان کی پارلیمنٹ کے. مشترکہ اجلاس کی تصویری جھلکیاں دکھائ جا رہی تھیں. عوامی نمایندگان جس طرح ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیاں اور لفظوں کے وار کر رہے تھے. اس سارے واقعے نے عبداللہ کے دل کو چیر کر رکھ دیا. اس کی آنکھوں سےآنسوں رواں ہو گے. کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کے لئے وہ خون کے دریا عبور کر کے پاکستان پہنچے. یہ وہ نمایندگان ہیں جن پر لاکھوں, کروڑوں روپے لگا کر قانون سازی کے لے اسمبلیوں میں بھیجا گیا ہے. آج پوری دنیا یہ منظر براہ راست دیکھ کر ہم پر ہنس رہی ہے. عبد اللہ سوچ میں پڑ گیا. ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے؟ یا پھر یہ دشمن کی چال ہے. کیا ہم اپنے نظریات سے انحراف کر چکے ہیں. اسے طارق اسعیل ساگر کے الفاظ یاد آگے. ہماری بدقسمتی کہ ہم نے اپنی جغرافیائی سرحدوں پر تو پہرے بٹھا دہے مگر اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت نہ کر سکے جس قوم کی نظریاتی سرحدیں منہدم ہو جاہیں اس قوم کے بڑےسےبڑے قلعے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں. جس قوم کے ارباب اختیار گالی گلوچ کو اپنا کلچر, مارکٹای کو اپنا شعار اور کرپشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں. اس قوم کو اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے. اگر اقوام عالم میں اپنا مقام بنانا ہے تو سوچ کے دھار ے کو بدلو. َبد بو دار نظام سے چھٹکارہ پاؤ. ان کے چہرے پر سے شرافت کا لبادہ اتارو.وہ لوگ سامنے لاوٗ.جو تمہاری تقدیر بدلیں جو معاشرے کےناسور نہ ہوں…جو معاشرے کےناسور نہ ہوں ۔۔جو معاشرے کے ناسور نہ ہوں…
زیڈ۔اے،چوہدری