پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں باقیوں سے زیادہ خود کو جمہوری پارٹیاں سمجھتی ہیں. دن رات جمہوریت پسندی اور اس کے فروغ کا راگ الاپا جاتا ہے. ہر پارٹی خود کو جمہوریت کی بقاء کا راز سمجھتی ہے.دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے والی تمام سیاسی جماعتیں اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کے فروغ سے خائف ہیں.
اپنی پارٹیوں میں تنظیم سازی کو کبھی دیانتداری سے سرانجام نہیں دیتیں. الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے نوٹسز جاری کرنا پرتے ہیں. جو لولی لنگڑی باڈیاں بنائی جاتی ہیں وہ بھی فقط اس لیے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آنکھوں میں دھول جونکی جاسکے. جمہوریت اور اس نظام کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں تنظیم سازی کا عمل مکمل کریں. تنظیم سازی کے عمل کو یونین کونسل اور ٹاؤن و گلی محلے تک لے کر جائیں مگر یہاں صوبوں اور ضلعوں میں جو خانہ پری کی جاتی ہے الامان و الحفیظ..
چن کر ان چند لوگوں کو رسمی عہدے دے دیے جاتے ہیں جو بس خاموشی سے سب دیکھتے سنتے رہیں اور ساری کی ساری پارٹی چند لوگوں کے گرد گھومتی رہے . ہر علاقے میں ایم پی اے، ایم این اے یا اس کا امیدوار ہی سب کچھ ہوتا ہے وہی سیاہ و سفید کا مالک قرار پاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں چلا جاتا ہے تو پیچھے اس پارٹی کا کوئی وجود نہیں رہتا.یہاں فقط چاپلوسی کو اہمیت دی جاتی ہے اہلیت و قابلیت مشکوک قرار پاتی ہے اگر چاپلوسی کے ہنر سے واقف نا ہو تو…
اگر یہ سیاسی جماعتیں تنظیم سازی کو مظبوط کریں اور باڈیاں کو باختیار بنائیں تو پھر پارٹیاں کبھی شخصیات کے گرد نا گھومیں بلکہ نظریہ اور منشور عام ہو. ایک محتاط اندازے کے مطابق سیاسی جماعتوں کے 20 فیصد ورکرز بھی اپنی پارٹی کے دستور اور منشور سے واقف نہیں ہوتے جو کہ کسی بھی نظریاتی پارٹی کی اساس ہے.
کارکنان کو محض نعرے بازی، جلسوں اور دھرنوں میں کھجل خواری اور ووٹ دینے یا دلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے.اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوریت کو اپنائیں تو کیا ساری ساری زندگی سیاست میں کھپا دینے والے اپنے ہی ہاتھوں میں پیدا ہونے اور کھیل کود کر جوان ہونے والے بچوں کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آئیں؟ ؟؟۔
پھر کسی بھی حلقے میں کسی ایم پی اے یا ایم این اے کے امیدوار کا متبادل اس کا بھائی، بیٹا، چچا، بھتیجا یا بھانجا نہیں بلکہ اس پارٹی کا تیار کیا گیا نیا لیڈر کھڑا ملے. یہاں سیاست فقط گنے چنے خاندانوں کا حق سمجھا جاتا ہے. کسی شریف مزدور یا غریب آدمی کو اس سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے.
ہمارے ملک کی 75 فیصد آبادی غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے ان کی نمائندگی کا حق کسی کو نہیں مل سکتا کیونکہ یہاں باضابطہ طور پر ان کو اس سارے عمل سے دور رکھا جاتا ہے. الیکشن کو اتنا مہنگا کردیا گیا ہے کہ یہاں بڑے بڑے سرمایہ دار ہی اس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں. ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے کروڑوں روپے خرچ کردیے جاتے ہیں.سوال یہ ہے کہ جو شخص کئی کروڑ لگا کر یہ نشست حاصل کرے گا وہ عوام کی نمائندگی کرے گا یا اپنا لگایا ہوا سرمایہ پورا کرے گا؟اگر فقط تنخواہوں پر ہی گزر بسر کرنا پڑے تو الیکشن میں لگے ہوئے پٹرول کے پیسے ہی 5 سال میں وصول نا کیے جاسکیں.
ہمارے ملک کا المیہ ہی یہی ہے کہ یہاں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی جاتی ہے. جن کے بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں جبکہ جنہوں نے لاکھوں روپے تنخواہیں لے کر ساتھ میں قومی خزانے کو کروڑوں کا ٹیکہ بھی لگانا ہوتا ہے ان کے لیے کچن الاؤنس، سفری الاؤنس، میڈیکل الاؤنس اور اعلی و مہنگی ترین تعلیم بھی مفت قرار پاتی ہے.
کیا یہ ستم نہیں کہ اس ملک کے کسی ایک خادم پر ایک دن میں اس غریب لاچار اور مقروض قوم کا جتنا خرچہ آتا ہے اس سے اس غریب کا سارا مہینہ گزر سکتا ہے.یہاں مزدور کی تنخواہ 20 ہزار روپے ہے اور اس مزدور کے حقوق کا تحفظ کرنے، اس کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے ، اس کی خدمت کے لیے سرکاری دفاتر میں بیٹھنے والوں کی لاکھوں میں…..
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو کپڑے لے کر فروخت کرنے چل پڑے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روکا اور کہا ابوبکرؓ اگر آپ اپنے کام کریں گے تو ریاست کے کام کون کرے گا؟حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گھر کا چولہا بھی تو چلانا ہے نا. معززین بیٹھے اور فیصلہ ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بیت المال سے تنخواہ دی جائے گی…. سوال پیدا ہوا کہ تنخواہ کتنی ہوگی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جتنی میری ریاست کا ایک مزدور لیتا ہے اتنی میری اجرت ہوگی اور اگر میرا اس میں گزارہ نا ہوا تو میں مزدور کی اجرت بڑھا دوں گا. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ایک دن حلوہ پکالیا. حضرت ابوبکرؓ گھر آئے تو پوچھا کہ اس کے لیے پیسے کہاں سے آئے تو بیوی نے کہا کہ روزانہ کے خرچے سے تھوڑے تھوڑے بچا کر رکھے تھے اکٹھے کیے اور حلوہ بنالیا. حضرت ابوبکرؓ صدیق فورا اٹھے اور بیت المال میں جاکر اتنی اپنی تنخواہ کم کروا دی…. یہ تھی ریاست مدینہ . …
کیا آج ہمارے لیڈران وطن مزدور جتنی 20 ہزار تنخواہ میں گزارہ کرسکتے ہیں؟20 ہزار میں تو ان کے ایک بچے کی شاید سکول فیس بھی ادا نا ہوپائے گی. حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے ایک شخص اٹھا اور کہا خدا کی قسم جب تک آپ اپنے اوپر لی ہوئی دوسری چادر کا حساب نہیں دیں گے میں خطبہ نہیں سنوں گا. اس کو نا تو غدار قرار دیا گیا اور نا یہ کہا گیا کہ خلیفہ وقت کا استحقاق مجروح کیا ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو حساب پیش کیا کیونکہ وہ اس ریاست کا معزز شہری تھا…کیا یہاں کسی سیاسی جماعت کے ورکر کی یہ تربیت ہے کہ وہ اپنے قائدین کا محاسبہ کرسکے؟وہ اپنے لیڈران کو یاد دلا سکے کی کل تک جن اصولوں پر ہم نے اپنے مخالفین کی وکٹیں اڑائی ہیں آپ ان اصولوں کا پاس نہیں رکھیں گے تو ہم آپ سے بھی سوال کریں گے. یہاں ورکرز کو بس اندھی تقلید کرنا سکھائی جاتی ہے.
جمہوریت کا لفظ جمہور سے نکلا ہے. جس کا مطلب عوام کی اکثریت اور عوام کی طاقت ہیں.یہاں کبھی عوام کی اکثریت ووٹ کے بعد فیصلہ سازی میں مقدم رکھی گئی ہے؟سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے: “goverment of the people,by the people,for the people” یعنی عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام پر…یہاں کب عوام کو حق حکمرانی نصیب ہوسکی ہے؟ہمارے قانون میں (گورنمنٹ سرونٹ میرج ود فارن نیشنل) 1962 کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم کسی غیر ملکی سے شادی نہیں کرسکتا. ہاں البتہ وہ اپنے متعلقہ افسر کی اجازت کے ساتھ انڈین لڑکی سے شادی کرسکتا ہے.
یہاں 1861ء کا فواجداری ایکٹ اور 1860ء کا پولیس ایکٹ ابھی تک نافذالعمل ہے جو انگریز نے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بغاوت کچلنے کے کے لیے بنایا تھا.
جبکہ یہاں ہر پانچ سال بعد اربوں روپے لگا کر ایوان زیریں اور ایوان بالا کے لیے نمائندے چنے جاتے ہیں جن کی آئینی ذمہ داری صرف قانون سازی ہے.
اس غریب اور لاچار قوم کے خون پسینے کی کمائی سے ان سینکڑوں ممبران اسمبلی کو بھاری تنخواہیں مراعات اور سہولیات دینے کے علاوہ ان کے ایک دن کے اجلاس کے لیے 4 کروڑ روپے ادا کیے جاتے ہیں اور پھر بھی یہاں ایسے پرانے فرسودہ اور سینکڑوں سال پہلے ایک جبری طور پر قابض ریاست کے بنائے گئے دستور نافذالعمل ہیں تو تف ہے اس کارکردگی پر…
تحریر : محمد راحیل معاویہ
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔