وادی کشمیر اچانک اداس اور سری نگر اس وقت سے محصور ہے جب بدھ کی شام حیدر پورہ کے مکینوں نے میڈیا کو تصدیق کی کہ علی گیلانی جسمانی طور پر ہم میں نہیں رہے۔ ہم ہیں پاکستانی، پاکستان ہمارا ہے کے خالق، بے تیغ سپاہی، غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی قرارداد الحاق پاکستان کے پہرے دار اور مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی وکیل سید علی شاہ گیلانی 92 سال کی عمر میں طویل قید و بند اور علالت کے بعد انتقال کر گئے۔
سید علی گیلانی کے انتقال کی اطلاع پر کشمیری بے قرار اور بھارتی فورسز بیدار ہو گئی۔ عوام کو حیدر پورہ آنے میں جلدی اور فورسز روکنے میں کمر بستہ ہے۔ وادی میں ہائی الرٹ کا اعلان کر کے سری نگر کو محصور کر دیا گیا۔ نصف صدی سے بھی زائد کشمیر کے سیاسی و مذاحمتی منظر نامے پر چھائے علی گیلانی نہ صرف جموں و کشمیر کی آزادی کی خواہش دل ہی میں لے کر رخصت ہوئے بلکہ شہداء قبرستان میں تدفین کی خواہش بھی فسطائی حکمرانوں نے پوری نہیں ہونے دی۔
انتقال کی خبر ملتے ہی خوف زدہ بھارتی انتظامہ نے وادی میں ایسی سختیاں اور پابندیاں لگانی شروع کر دیں کہ جن سے سری نگر جیل اور سری نگر کے مکین محصور ہو کر رہ گئے۔ انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی اور پولیس گاڑیوں سے اعلان ہونے لگے کہ کوئی گھر سے نہ نکلے، گویا سری نگر میں غیر اعلانیہ کرفیو اور حیدر پورہ کو خار دار تاروں سے بند کر دیا گیا۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق کٹھ پتلی انتظامیہ نے علی گیلانی کی جلد تدفین پر زور دیا بصورت دیگر میت کو بحق سرکار ضبط کر لینے کی دہمکی بھی دی گئی۔ اے ایف پی نے رات گئے بتایا کہ سید علی گیلانی کی رہائش گاہ حیدر پورہ کی جانب جانے والی سڑکوں پر رکاوٹیں اور خاردار تاریں پھلا دی گئی ہیں اور پولیس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں کسی کو اپنے گھرسے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق علی گیلانی کی وفات کے اعلانات قریبی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے کیے گئے اور لوگوں سے کہا گیا کہ نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ان کی رہائش گاہ پہنچیں لیکن اس سے پہلے کہ لوگ گھروں سے نکلتے غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر پولیس گاڑیوں سے اعلان ہونے لگے کہ کوئی گھر سے نہ نکلے۔ بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق سرینگر میں اچانک غیر معمولی صورت حال پیدا ہو گئی اہم شاہراہوں پر لاتعداد بکتر بند گاڑیاں کثیر تعداد میں فوج دکھائی دے رہی تھیں اور عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایات جاری کی گئی۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام علی گیلانی سے ان کے سخت گیر موقف کی وجہ سے پیار کرتے تھے، حتیٰ کہ بھارت نواز قیادت بھی موقف پر ثابت قدم رہنے کی وجہ سے ان کا احترام کرتی تھی۔ علی گیلانی جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن اور مجائدین کے لیے رول ماڈل تھے۔ ان کے اس نعرے ‘ہم ہیں پاکستانی، پاکستان ہمارا ہے’ نے جموں و کشمیر کے عوام کے خون میں حرارت پیدا کر دی اور نوجوانوں کو دنیا کی طاقت ور آرمی کے سامنے کھڑا کر دیا۔ تحریک آزادی کشمیر ایک مرتبہ پھر دنیا میں مقبول اور مسئلہ کشمیر بین الاقوامی ایوانوں میں زندہ ہوا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے غیر لچک دار رویہ اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی اور سفارتی کمزوریوں کے باعث تحریک کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے انہوں نے دونوں پڑوسی ممالک میں ان کی سوچ کے خلاف بنائی جانے والی پالیسیوں سے کبھی اتفاق نہیں کیا۔
اسد الدین اویسی کی سربراہی میں آنے والا بھارتی پارلیمنٹ کا وفد گیلانی کے دروازے پر دستک دیتا رہا لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ انہوں نے ملاقات کے لیے مشروط آمادگی ظاہر کی کہ بھارت پہلے کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرے۔
نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا تو علی گیلانی نے کہا کہ بھارت سونے کی سڑکیں اور چاندے کے کھمبے بھی نصب کر لے لیکن کشمیری اپنے موقف حق خودارادیت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت ہونے کے باوجود وہ حریت وفد کے ساتھ پاکستان نہیں آئے کہ بھارتی پاسپورٹ لے کر خود کو بھارتی شہری تسلیم کرنا منظور نہیں تھا۔ پلوامہ واقعے پر مودی نے کہا تھا کہ بھارت اپنے سپاہیوں کو بھولیں گا نہیں جس پر علی گیلانی نے جواب دیا کہ تم 47 سپاہیوں کو نہیں بھولوگے ہم 7 لاکھ شہیدوں کو کیسے بھول جائیں۔
علی گیلانی نے پرویزمشرف کے فارمولے کی ڈٹ کر مخالفت کی اور واضح کردیا کہ تقسیم کشمیر اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر کوئی حل منظور نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر پاکستان، بھارت سیز فائر کے بعد 28 فروری کو جاری بیان میں علی گیلانی کا سوال دنیا بھر میں گونجا جو یہ تھا ’’ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد لائن آف کنٹرول پر توپیں خاموش ہو جائیں گی، لیکن کیا کشمیر میں جاری خون ریزی بھی بند ہو پائے گی؟‘‘
اس بیان پر کہ ہمیں ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے سید علی گیلانی نے 22 مارچ کو کہا کہ تھا کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر بہتر تعلقات استوار کرنا اچھی سوچ ہے لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تلخی پیدا کرنے کی وجہ باقی نہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف کشمیری عوام ظلم کی چکی میں پستے رہیں اور دوسری طرف ہم خطے میں امن کی بھی توقع رکھیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ سید علی گیلانی کے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا نہ کسی نے دیا۔
سید علی گیلانی کی وفات پر پاکستان، کشمیر کے دونوں طرف اور ڈائس پورا میں سوگ منایا جا رہا ہے۔ آزاد کشمیر میں ایک روزہ چھٹی اور 3 دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا جب کہ پاکستان میں ایک روزہ سوگ کے ساتھ قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
محبوبہ مفتی نے سید علی گیلانی کی مستقل مزاجی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ان کی مستقل مزاجی اور اصول پسندی کے لیے ان کا احترام کرتی ہوں۔
وزیراعظم عمران خان نے علی گیلانی کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ساری زندگی کشمیری عوام اور ان کے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد میں گزاری اور قابض بھارتی ریاست کی جانب سے قید اور تشدد سہنے کے باوجود ڈٹے رہے۔
سید علی گیلانی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سوپور اور اعلیٰ تعلیم اورینٹل کالج لاہور سے حاصل کی۔ اس دوران انہوں نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کیں۔
وہ سن 1972 اور 1977 میں جموں و کشمیر اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور حق خودارادیت کے مسئلے پر مسلسل بولتے رہے۔ سن 1987 میں مسلم متحدہ محاذ کی حمایت سے الیکشن جیتا۔ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی شکایت پر احتجاج اور بعد ازاں کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوئی اور محاذ کے ایک رکن اسمبلی عبدالرزاق بچرو پر اسرار حالات میں مارے گئے تو گیلانی سمیت چاروں ارکان اسمبلی سے مستعفی ہو گئے۔
سید علی گیلانی نے مسلح تحریک کی کھل کر حمایت کی اور انتقال تک اسی موقف پر قائم رہے اور تحریک آزادی کی قیادت کرتے رہے۔ حالات کے نشیب و فراز سید علی گیلانی کے عزم و ہمت کو متزلزل نہ سکے۔ اللہ تعالی اس مرد حریت کے درجات بلند کرے (آمین)۔